لاہور(ویب نیوز )
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ ملکی بجٹ کا نصف سود کی نذر، بڑا حصہ دفاعی بجٹ اور صرف 800ارب ترقیاتی کاموں کے لیے بچتا ہے۔ صحت، تعلیم کی بہتری، پی آئی اے، ریلویز کی بحالی اور عوامی فلاح کے منصوبوں کے لیے یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ ملک کے سوا دو کروڑ نوجوان بے روزگار، تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ مہنگائی، غربت نے گھر گھر ڈیرے جما لیے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت غیر سنجیدہ ثابت ہوئی۔ پورا نظام فرسودہ ہے، بہتری کے لیے قرآن و سنت سے رہنمائی لینا ہو گی۔ نام نہاد جمہوری ادوار اور مارشل لاز نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، اب پاکستان کو اسلامی نظام ہی بچا سکتا ہے۔ 73برسوں سے بانیانِ پاکستان کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ اسلامیان پاکستان کو مختلف عصبیتوں پر تقسیم کیا گیا، ملک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا اور قوم کے ارمانوں کا خون کیا گیا۔ حکومت نے کشمیر پلیٹ میں رکھ کر بھارت کے حوالے کر دیا۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کنٹرول کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غلام کی کوئی پالیسی نہیں ہوتی۔ ملک دوراہے پر کھڑا ہے، فیصلہ کرنا ہو گا کہ گھسے پٹے نظام کے ساتھ چلنا ہے یا ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمدؒ کے یوم وفات کی مناسبت سے اسلام آباد میں ہونے والے سیمینار سے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔ اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد حسین سید، اے این پی کے سینیٹر ہدایت اللہ، سابق سفیر عبدالباسط، سابق سفیر ایاز وزیر، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی، ترجمان حزب اسلامی افغانستان غیرت بحیر، جماعت اسلامی کے ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی، ڈائریکٹرامور خارجہ جماعت اسلامی آصف لقمان قاضی، سابقہ ایم این ایز سمیحہ راحیل قاضی اور عائشہ سید نے بھی خطاب کیا۔
مقررین نے مجاہد اسلام قاضی حسین احمدؒ کی دینی و ملی خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انھیں سچا محب وطن اور امت کا درد رکھنے والا عظیم مفکر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قاضی حسین احمدؒ نے پوری زندگی امت کے اتحاد اور اسلام کے احیا کی جدوجہد کرتے ہوئے بسر کی۔ مرحوم کی ملک میں اسلام کے نفاذ اور حقیقی جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جماعت اسلامی کے تیسرے امیر قاضی حسین احمدؒ کی نویں برسی کے موقع پر ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد ہوا۔
سراج الحق نے کہا کہ اسلامی ممالک کی وزرائے خارجہ کانفرنس اسلام آباد کے موقع پر کشمیر کا ذکر تک نہ ہوا۔ اسلامی دنیا کے لیڈران نے افغانستان کو تسلیم نہ کر کے حقیقت میں امریکا کو یہ پیغام دیا کہ اگر واشنگٹن کی مرضی ہے تو ہم افغانستان کو تسلیم کر لیتے ہیں ورنہ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی دنیا کے حکمران امت کی حقیقی معنوں میں ترجمانی نہیں کر رہے۔ وسیع تر ذخائر اور قدرتی دولت سے مالا مال اسلامی ممالک کے عوام کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ ان پر مسلط حکمرانوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے ہیں۔ امت مسلمہ کو قوم، نسل اور دیگر عصبیتوں پر ایک ایجنڈے کے ذریعے تقسیم کیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ سات دہائیوں سے لٹک رہا ہے۔ بھارت اور اسرائیل کشمیری اور فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں مظالم کی نت نئی تاریخ رقم کرتے ہیں، مگر اس پر عالمی ادارے اور طاقتیں تو کیا بولیں گی اسلامی ممالک کے حکمران بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
امیر جماعت نے کہا کہ وزیراعظم نے کشمیر کو مکمل طور پر فراموش کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں ایک تقریر کے بعد کبھی کشمیروں کا ذکر تک نہیں کیا۔ پی ٹی آئی حکومت داخلی اور خارجی محاذوں پر ڈلیور کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے ساڑھے تین برس ناکامیوں کی داستانوں پر محیط ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب ملک کو اسلام کی ضرورت ہے۔ ہمارے تمام مسائل کا حل دین سے رشتہ جوڑنے میں ہے۔ قوم کو متحد ہو کر اللہ کی رسی کو تھامنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عوام ان لوگوں کو ملک کی خدمت کا موقع دیں جن کا دامن کرپشن اور بددیانتی سے پاک ہے۔
اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ قاضی حسین احمدؒ ان کے روحانی باپ کی طرح تھے۔ وہ کشمیر اور افغانستان کے مسئلہ کو لے کر بہت سنجیدہ خیالات رکھتے تھے۔ کشمیر اور افغانستان کے مسلمانوں کو اپنے بچوں کی طرح عزیز سمجھتے تھے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ قاضی حسین احمدؒ نے امت مسلمہ کے تمام مکتبہ فکر کو قریب کیا اور انھوں نے جماعت اسلامی کو متحرک اور جدید بنایا۔ انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر اس ملک میں کوئی منظم اور جمہوری جماعت ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔
ڈاکٹر غیرت بحیر نے کہا کہ افغان قوم غریب ضرور ہے، مگر کمزور ہرگز نہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج بھی کہتا ہوں کہ افغانستان کے فیصلے افغانوں کو کرنے دیے جائیں۔