صرف بنیادی حقوق کے خلاف ترامیم ہونے کے نکتے کا جائزہ لیں گے، ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی

اعلی عدلیہ اپنے فیصلوں میں نیب قانون پر تنقید کرتی رہی ہے، 90روز کا ریمانڈ کہیں نہیں ہوتا، فوجداری کیسز میں 14 دن سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں ہوتا

پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جاکر کردار ادا کریں، لیکن انہوں نے بائیکاٹ کر رکھا ہے ،اسمبلی میں بیٹھے ارکان اپنے ذاتی فوائد کے لئے قانون سازی کررہے ہیں ،ریمارکس

عدالت کے باہر سیاسی موسم تبدیل ہوتا رہتا ہے، کیا سیاسی موسم کا عدالت کے اندر اثر ہونا چاہیے؟، جسٹس منصور علی شاہ، سماعت یکم ستمبر تک ملتوی

اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں کہاہے کہ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی، آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے، اسمبلی میں بیٹھے ارکان اپنے ذاتی فوائد کے لئے قانون سازی کررہے ہیں، عدالت نیب ترامیم کے خلاف درخواست کے کیس میں بہت احتیاط سے کام لے گی،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جا کر کردار ادا کریں، لیکن انہوں نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب قانون میں تبدیلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے تحریری دلائل جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا اور کہا کہ کورونا ہوگیا تھا اس وجہ سے تحریری دلائل جمع نہیں کروا سکا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ اعلی عدلیہ اپنے فیصلوں میں نیب قانون پر تنقید کرتی رہی ہے، 90روز کا ریمانڈ کہیں نہیں ہوتا، فوجداری کیسز میں 14 دن سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں ہوتا، کرپشن پر سزا کی شرح جاپان میں  فیصد ہے۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی، صرف بنیادی حقوق کے خلاف ترامیم ہونے کے نکتے کا جائزہ لیں گے، ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، اکثر ترامیم میں ملزمان کو رعایتیں بھی دی گئی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پلی بارگین کرنے والے کے شواہد کو ہی ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے، فوجداری نظام میں گرفتاری کی ممانعت نہیں ہے، گرفتاری جرم کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے۔اس موقع پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ ملزمان بری ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر سے الزامات کے داغ نہیں دھلتے، اعلی عدلیہ نیب عدالت کی سزائیں برقرار نہیں رکھتی۔چیف جسٹس نے کہاکہ ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے، سابقہ حکومتی جماعت کے 150 ارکان اسمبلی بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہیں، پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جا کر اپنا کردار ادا کریں، اسمبلی میں موجود ارکان کو اپنے فائدے کی قانون سازی نہیں کرنا چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، تحقیقات میں مداخلت پر ازخودنوٹس لیا تھا، ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ لیکر صرف دیکھ رہے ہیں کہ کیسز چلتے ہیں یا نہیں، آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کریں گے، عدالت غیر معمولی حالات میں کیس سن کر مزے نہیں لے رہی۔وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ ہمیشہ منتخب حکومت کیساتھ کھڑی ہوتی ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے ان سے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ کی مثال اس حوالے سے درست نہیں لگتی ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ عدالت کے باہر سیاسی موسم تبدیل ہوتا رہتا ہے، کیا سیاسی موسم کا عدالت کے اندر اثر ہونا چاہیے؟ کیا عدالت میں صرف آئین اور قانون کا موسم نہیں رہنا چاہیے؟بعد ازاں کیس کی مزید سماعت یکم ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔