ہم نئی، نئی چیزیں کرتے ہیں قانون پر عمل کسی نے نہیں کرنا،اگرریاست ایسا نہیں کرے گی توہم سخت ہوں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پولیس کا یہی کام رہ گیا ہے کہ دنیا کو دکھائیں پاکستان میں ہی توہین مذہب ہوتی ہے

توہین مذہب کا معاملہ ہوتوایس ایس پی کے علم میں فوری لایا جائے۔دوران سماعت ریمارکس

عدالت نے 50ہزارروپے کے مچلکوں کے عوض توہین مذہب کے ملزم کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری منظور کرلی

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کیا بغیر وارنٹ اسلام آباد کے کسی بھی گھر میں پولیس والا گھس سکتا ہے، یہ پاکستان کا قانو ن ہے۔ ہم نئی، نئی چیزیں کرتے ہیں قانون پر عمل کسی نے نہیں کرنا،اگرریاست ایسا نہیں کرے گی توہم سخت ہوں گے۔295-Cکا جرم یہ نہیں کہ پہلے گرفتار کریں اورپھر ریکوری کروائیں، پولیس کا یہی کام رہ گیا ہے کہ دنیا کو دکھائیں پاکستان مین  ہی توہین مذہب ہوتی ہے، شکایت کندہ ددڑا، دوڑا آگیا، اس کو کیا تکلیف ہے، کسی متاثرہ شخص کے لوگ نکل آئیں توکیا پولیس اسی کے خلاف ایف آئی آرکاٹ دے گی۔ توہین مذہب کا معاملہ ہوتوایس ایس پی کے علم میں فوری لایا جائے اورایس پی رینک کاافسر تحقیقات کرے اوردرخواست گزاروں کے حوالہ سے بھی تحقیق کی جائے۔ قرآن میں ہے کہ کسی کے گھر جانے سے قبل اجازت لینی چاہیئے اوراس کاقانونی طریقہ عدالت سے سرچ وارنٹ حاصل کرنا ہے،آپ نے اسلام کالبادہ اوڑھا ہوا ہے، بتائیں کیا وارنٹ کے بغیر کوئی چیزکرسکتے ہیں، کیا پاکستان کاقانون آپشنل ہے۔ پولیس آرڈر 2002کے تحت بغیر وارنٹ اگر پولیس والا کسی کے گھر میں جائے گاتویہ فوجداری جرم ہے اور اس کی پانچ سال تک قید کی سزا ہے، کیا ایس ایس پی تفتیشی افسر کے خلاف پرچہ کٹوائیں گے۔ بغیر سرچ وارنٹ ملزم کے گھر چھاپہ مارنے کے معاملہ پر ایس ایس پی اور ایس پی اسلام آباد، چیف جسٹس کی جانب سے طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہو گئے۔عدالت نے 50ہزارروپے کے مچلکوں کے عیوض توہین مذہب کے ملزم کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری منظور کرلی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے توہین مذہب کیس میں گرفتار ملزم سائیں زبیر شاہ(ایف آئی آر میں درج نام)جبکہ شناختی پراصل نام زبیر سعید صابری کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ درخواست میں ریاست پاکستان کو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اوردیگر کے توسط سے فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد الیاس صدیقی بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔ شکایت کندہ اپنے وکیل کے ہمرہ عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے مدعی کے وکیل کی جانب سے بار، بار پیر صاحب، پیر صاحب کا لفظ استعمال کرنے پر بھی شدید برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ نام قانون میں درج ہے؟کس قانون میں دم کرنے کا لکھا ہوا ہے؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پیر صاحب، پیرصاحب، کوئی قانون میں لکھا ہے پیر، جو سڑک پر آدمی ہے وہی بات وکیل کررہے ہیں، ایسے تونہ کریں، پیرصاحب۔جسٹس مسرت ہلالی کا شکایت کندہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کا تو اپنا ایمان مضبوط نہیں دم کروانے گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زبیر شاہ کا کوئی آستانہ ہے، میں کہہ دوں آپ کے سر پر سینگ ہیں توآپ مان لیں گے، پاکستان میں ہم تنگ آگئے ہیں، بڑی خوشی سے ڈھنڈورا پیٹتے ہیںکہ پاکستان میں توہین مذہب ہوتی ہے، ہر چیز مذہب کے خلاف کررہے ہیں، مذہب کی توہین ہورہی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کس قانون میں دم کرنالکھاہوا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ زبیر شاہ کے گھر بحثیت مرید گیا اوراسی کے خلاف پرچہ کٹوادیا۔ شکایت کندہ کے وکیل کا کہنا تھاکہ اس کا دوست زبیر شاہ کے گھر سردرد کا دم کروانے گیا، اس کے گھر 12اماموں اورنبیۖ کی تصویریں لگائی ہوئی تھیں۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ یہ بات کرکے تووکیل خود توہین مذبب کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا تفتیشی افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کے خلاف بھی پرچہ کاٹنے کاکہیں گے، آپ کسی کے گھر تلاشی لینے گئے وارنٹ کدھر ہے، کیا کسی کے گھر بغیروارنٹ گھس سکتے ہیں،وارنٹ کدھر ہے، آپ نے سرچ وارنٹ کیوں نہیں لیا، کیاپولیس شکایت کندہ کی جیب میں ہے۔ چیف جسٹس کا ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ کے اورمیرے گھر میں پولیس والا گھس سکتا ہے، کیا بغیر وارنٹ اسلام آباد کے کسی بھی گھر میں گھس سکتا ہے، یہ پاکستان کا قانون ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نئی، نئی چیزیں کرتے ہیں قانون پر عمل کسی نے نہیں کرنا،اگرریاست ایسا نہیں کرے گی توہم سخت ہوں گے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ ان کو بیماری کیا تھی جو علاج کے لئے گئے۔ چیف جسٹس نے شکایت کندہ سے سوال کیا کہ ان کا کاروبار کیا ہے۔اس پر شکایت کندہ کا کہنا تھا کہ ان کا جنرل اسٹوراورکاسمیٹکس کا کاروبارہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کیا کاسمیٹکس شریعت کے مطابق ہیں، دوسروں پر انگلی اٹھانا آسان ہے، آپ توماہر شریعت ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قرآن میں ہے کہ کسی کے گھر جانے سے قبل اجازت لینی چاہیئے اوراس کاقانونی طریقہ عدالت سے سرچ وارنٹ حاصل کرنا ہے،آپ نے اسلام کالبادہ اوڑھا ہوا ہے، بتائیں کیا وارنٹ کے بغیر کوئی چیزکرسکتے ہیں، کیا پاکستان کاقانون آپشنل ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سوچ رہے ہیں کہ تفتیشی افسر کے خلاف پرچہ کٹوائیں، ایسے لوگوںکو پولیس میں ہونا ہی نہیں چاہیئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پہلے پکڑ لیتے ہیں اورپھر295-Cکا کیس بناتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آرڈر کرتے ہیں کہ ان کے خلاف پرچہ کاٹیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کس نے تحقیقات کی ہیں۔ چیف جسٹس نے قانون کی پاسداری نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہارکرتے ہوتے کہا کہ لگتا ہے اسلام آباد میں کوی گھر محفوظ نہیں، بنا وارنٹ پولیس لوگوں کے گھروں کا تقدس کیسے پامال کر سکتی ہے؟قتل ، ڈکیتی کا پرچہ تو پولیس فوری درج نہیں کرتی، پولیس شکایت کنندہ کی جیب میں ہے؟ہماری اور آپکی تنخواہ عوام دیتی ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کہ کہ ایس پی رخسار مہدی کوبلائیں اوران سے کہیں کیس کی پوری فائل لے کرآئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایس پی اسلام آباد کو فوری طور پر بلائیں ہم اس کیس کی سماعت بعد میں کریں گے۔ اس دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصورعثمان اعوان کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کے کیس میں پیش ہونے کے لئے کمرہ عدالت نے پہنچے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر کیخلاف مقدمہ درج کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب !ایسے مقدمات تو سپریم کورٹ آنے ہی نہیں چاہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل چودہ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ،ہمیں لا افسران سے معاونت نہیں مل رہی ،لا افسران مدعی کے وکیل بن جاتے ہیں۔ عدالتی وقفہ کے بعد ایس ایس انویسٹی گیشن اسلام مسعود احمد اورایس پی انویسٹی گیشن رخسار مہدی پیش ہوئے اورتقریباً دوگھنٹے عدالت میں بیٹھنے کے بعد دوبارہ کیس کی سماعت شروع ہوئی۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ قانون کہہ رہا ہے توہین مذیب کیس کی تحقیقات ایس پی کرے گا،قانون کے ہوتے ہوئے ماتحت کیسے تحقیقات کرسکتا ہے؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمان قانون بنائے اس پر عمل ہی نہیں کرنا، دوست کے سرمیں درد تھا کوئی تلخی ہوگئی پرچہ کاٹ دیا۔ چیف جسٹس نے ایس ایس پی اسلام آباد سے پوچھا کہ کیا آپ نے اس کیس کی تفتیش کی ہے۔ اس پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن اسلام آباد مسعود احمد کا کہنا تھا کہ میں حال ہی میں تعینات ہوا ہوں، میری تعیناتی دسمبر میں ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیسے کیس بنارہے ہیں ہمارے لئے مشکلات کھڑی کررہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز کی حساسیت کودیکھتے ہوئے قانون بنایا گیا کہ 295-Cکے مقدمہ کی تفتیش ایس پی رینک کے افسر نے کرنی ہے، چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایس پی یاتفتیشی افسر یادونوں کو معطل کرنا چاہیئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پوراکیس منہدم ہوجائے گااگر انسپیکٹر نے تفتیش کی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاء افسران کوئی معاونت نہیں ملتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ معاملہ کے حوالہ سے 2005میں ترمیم کی گئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر پولیس ڈرپوک ہونے لگی توبہادرکون رہے گا، بغیر وارنٹ کسی کے گھر میں کیسے جاسکتے ہیں،یہ آدمی کیسے اُس کے گھر میں گیا۔ چیف جسٹس نے ایس ایس پی سے سوال کیا کہ کیا تفتیشی افسر آپ کے گھر کی تلاشی لے سکتا ہے؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس آرڈر 2002کے تحت بغیر وارنٹ اگر پولیس والا کسی کے گھر میں جائے گاتویہ فوجداری جرم ہے اور اس کی پانچ سال تک قید کی سزا ہے، کیا ایس ایس پی تفتیشی افسر کے خلاف پرچہ کٹوائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 295-Cکا جرم یہ نہیں کہ پہلے گرفتار کریں اورپھر ریکوری کروائیں، پولیس کا یہی کام رہ گیا ہے کہ دنیا کو دکھائیں پاکستان میںہی توہین مذہب ہوتی ہے، شکایت کندہ دوڑا، دوڑا آگیا، اس کو کیا تکلیف ہے، کسی متاثرہ شخص کے لوگ نکل آئیں توکیا پولیس اسی کے خلاف ایف آئی آرکاٹ دے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کتنے محلے والوں کولایا گیا، میںاپنے دوست کو دم کروانے لے گیا،کسی کے گھر جائیں پھر اسی کے خلاف پرچہ کٹوادو، اخلاق کے دائرہ سے یہ آدمی باہر ہو گیا ہے، اُس نے نہیں بلایا تھا یہ خوگیا تھا، اِس کو یہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب ہے اس سے اسلام کاوقار بلندہو گا، کوئی بھٹک گیا ہے اس کو سمجھائو، یہ پورے معاشرے کا ٹھیکیدار بن گیا ہے، پولیس ٹھیکدار ہے، پستولیں آپ کے پاس ہیں اورڈر بھی پولیس والے سب سے زیادہ رہے ہیں،کیا مدعی نے پولیس والے کے سرپرپستول رکھی تھی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مدعی کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قرآن شریف میں پیر کاکہاں ذکر ہے، قرآن شریف پڑھا ہے کہ نہیں، کس زبان میں ہے۔ اس پر مدعی کا کہنا تھا کہ عربی میں ہے اوراُردروترجمہ بھی اس نے پڑھاہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خود کسی کو پیر مان رہے ہو۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیئے تھا، فساد ڈالنے گئے تھے۔ چیف جسٹس نے تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ کیا دوسرے لڑکے کا بیان ریکارڈ کیاہے۔ اس پر تفتیشی کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کیا ہے اوراس نے بھی یہی کہا ہے کہ ہم دونوں گئے تھے۔ درخواست گزار کے موئکل کا کہنا تھا کہ اس کے موئکل سات ماہ سے جیل میں ہیں۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ دم درخواست گزار کے اپنے کام نہیں آرہا۔ چیف جسٹس کا ایس ایس پی انویسٹی گیشن مسعود احمد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنے معاملات کوسنجیدگی سے لیں۔ مذہب کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال نہ ہونے دیں، ہم حیران ہیں یہ چیزیں ہورہی ہیں۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ پولیس نے سرچ وارنٹ نہیں لیا اور ایس پی رینک کے افسر نے تحقیقات نہیں کیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایس ایس پی نے کہ وہ متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف ڈسپلنری کاروائی کاسوچیں گے۔ عدالت نے قراردیا کہ معاملہ مزید تحیققات طلب ہے۔ عدالت نے ملزم کی 50ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظور کرلی۔ ZS

#/S