پیپلزپارٹی کے سابقہ ادوار میں اشتہارات کی تقسیم کی تفصیلات بھی طلب کر لی گئیں
اسلام آباد (ویب نیوز)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف پی ٹی وی ہیڈکوارٹر میں حساس نوعیت کی پریس کانفرنس کی تحقیقا ت کا اعلان کردیا پیپلزپارٹی کے سابقہ ادوار میں اشتہارات کی تقسیم کی تفصیلات بھی طلب کر لی گئیں کمیٹی نے ایک بار پھر وزیراعظم کو وزیرمملکت برائے اطلاعات ونشریات تعینات کرنے کی سفارش کی دی کمیٹی کا اجلاس پیر کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیرصدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔ کمیٹی کی طرف سے تجویز دی گئی ہے وزارت اطلاعات ونشریات کا کام زیادہ ہے، براڈکاسٹ کیلئے علیحدہ وزیر ہونا چاہئے اور یہی حل ہے۔عمران خان کے خلاف پی ٹی وی ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کے معاملے پر ایم ڈی پی ٹی وی و ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات ونشریات نے کہا کہ پریس کانفرنس کے انتظام میں پی ٹی وی کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔پی ٹی وی پریس کانفرنس کیلئے پرائیویٹ چینلز کی درخواست پر کلین فیڈ دیتے ہیں۔وزیرکی پریس کانفرنس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے نفرت انگیز مواد کو نشرکیا گیا۔نفرت انگیز کلپس بھی نشر کئے گئے۔نیشنل ایکشن پلان میں یہ بات طے ہوگئی کہ نفرت انگیز مواد ناقابل قبول نہیں ہوگا۔مذہبی نفرت انگیز مواد کو سپورٹ نہیں کرنا چاہئے، آپ لائیو فیڈ میں ڈیلے کر کے چلا سکتے تھے۔ ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ ٹرانسمیشن معمول کے مطابق ہوتی ہے ۔پریس کانفرنس کے انتظام میں کوئی کردار نہیں ہے۔سینیٹرعرفان صدیقی نے تجویز دی کہ تحقیق ہونی چاہئے۔ جنہوں نے اچھالا ہے ان سے بھی پوچھنا چاہئے۔ماضی کی حکومتوں میں بھی یہی روایت رہی ہے جو کہ نہیں ہونی چاہئے، اس معاملے کی رپورٹ کمیٹی میں لازمی پیش ہونی چاہئے۔ میں مانتا ہوں کہ سرکاری ادارے کو یہ نہیں کرنا چاہئے۔جس طرح ہم عمران خان کی باتیں نظر انداز کرتے ہیں آپ بھی کرلیا کریں۔جو کلپش چلے ہیں اس کی تحقیق ہونی چاہئے اور اس طرح کا عمل نہیں ہونا چاہئے تھا۔اگر میری حکومت میں ایسی بات ہوئی ہوتی تو میں لازمی ایکشن لیتا۔ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ اس عمل کی تائید نہیں کی جا سکتی جب مجھے علم ہوا تو اس کو دوبارہ نشر نہیں کیا گیا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے معاملے کی رپورٹ مرتب کرکے کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کسی کی بھی حکومت ہو اس طرح نہیں ہونا چاہئے۔چیئرمین کمیٹی نے ایم ڈی پی ٹی وی سے سوال کیا کہ جو کلپ چلا ہے وہ آپ کے چینل سے کس نے چلایا ہے؟۔ اس کی بھی تحقیق کر لیں کہ پی ٹی وی پر نفرت انگیز کلپس کس نے چلائے۔ ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ جب تحقیقات ہوں گی تو پتہ چلے گا کہ کس نے کلپ چلایا ہے۔چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ اس کی اندرونی انکوائری کرائیں، سات روز کے اندر معاملے کے حوالے سے رپورٹ میں پیش کریں اور لائیو فیڈ کے دوران ڈیلے میکینزم کو بھی فعال بنائیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے عمران خان سے متعلق نفرت انگیز مواد نشر کرنے کے حوالے سے رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پیمرا کو بھی پرائیوٹ چینلز پر نفرت انگیز مواد نشر کرنے کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ پیمرا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ صرف دو چینلز نے مواد نشر کیا اور ان کو شوکاز نوٹس جاری کئے ہیں۔چینلز کے ایڈیٹورئیل پالیسی میں مداخلت نہیں کرتے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ٹی وی چینلز کو اشتہارات کی تقسیم کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے حکام نے کمیٹی اجلاس میں سال2013 سے2018 اور2018 سے 2022 اپریل تک کا ڈیٹا پیش کیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اشتہارات کی تقسیم میں علاقائی چینلز کی ویور شپ کو کیوں نہیں دیکھا جاتا۔ سرکار کو چاہئے کہ ان علاقائی چینلز کا بھی خیال کریں۔سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ سندھ کے چینلز کو بھی حصہ نہیں ملتا۔پی آئی ڈی کے پریس انفارمیشن آفسیرنے کمیٹی کو بتایا کہ جیو کو سال2013 سے2018 تک62 کروڑ روپیاور اے آر وائی کو 8 کروڑ روپے کے اشتہارات ملے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دونوں چینلز ایک ہی کیٹیگری میں آتے ہیں لیکن ریٹس میں اور اشتہارات دینے میں کیوں اتنا فرق ہے۔ حکام پی آئی ڈی نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت کیٹیگریز نہیں تھیں۔ اشتہارات کی تقسیم کے وقت سپانسرنگ ایجنسی کے نقطہ نظر کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔اگلی لسٹ میں علاقائی چینلز کی تفصیلات مہیا کردیں گے۔سال2008 سے2013 میں اشتہارات کی تقسیم کار کا سسٹم الگ تھا۔چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ اشتہارات کی تقسیم میں تضاد بہت زیادہ ہے ایسے دوبارہ نہیں ہونا چاہئے، میکیزم کو بہتر کریں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سال2008 سے2013 تک کے اشتہارات سے متعلق محکمہ جات سے ڈیٹا لے کر کمیٹی کے اجلاس میں پیش کریں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی دور کا چینلز کو اشتہارات دینے کا ڈیٹا بھی پیش کیا گیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اشتہارات کے حوالے سے میکیزم طے کیا جائے اور سیاسی بنیادوں پر اشتہارات کی بندر بانٹ نہیں ہونی چاہئے، ویورشپ کے مطابق اشتہارات کی تقسیم انصاف پر ہونی چاہئے۔بہت سال گزر گئے لیکن اشتہارات کی تقسیم کے میکینزم کے حوالے سے معاملات طے نہیں ہوئے، اگلی میٹنگ میں اس حوالیاندرونی کمیٹی کی رپورٹ کمیٹی میں پیش کریں۔ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے دفتر میں درختوں کی کٹائی کے معاملے پر رپورٹ بھی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی گئی ۔کمیٹی نے ہدایت کی ذمہ داروں کا تعین کریں اور ان کے خلاف کیا کاروائی کی اگلی میٹنگ میں بتائیں۔ اجلاس میں وزیراعلی پنجاب کی تقریب حلف برداری پی ٹی وی پر براہ راست نشر نہ کرنے کے معاملے پر کمیٹی میں بحث کی گئی۔پریس سیکرٹری ایوان صدر نے کمیٹی کو بتایا کہ اس معاملے پر صدر مملکت کو تفصیلات سے آگاہ کیا تھا اور تحریری طور پر اس معاملے کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کردیں گے۔سیلاب زدگان کی امداد کیلئے براہ راست ٹیلی تھون کی نشریات کو بعض میڈیا چینلز پر روکنے کامعاملہ بھی کمیٹی میں زیر بحث آیا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سیلاب زدگان کیلئے پی ٹی آئی ٹیلی تھون کے ذریعے جو فنڈز اکٹھا کر رہی ہے اس میں وہ وفاق اور سندھ کو بھی دیں گے لیکن پی ٹی وی نے بھی اس پروگرام کو نہیں دکھایایہ معاملہ سیاست سے بالاتر ہے اس پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔اگر وزیراعظم عمران خان ہوتے تو اپوزیشن کی جانب سے اس طرح کے ٹیلی تھون کو لازمی دکھاتے۔ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی بتائے کہ سیلاب زدگان کیلئے لائیو ٹیلی تھون کیوں نہیں نشر کی جا رہی۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سلیم مانڈی والا کی جانب سے پیش کئے گئے صحافیوں کے تحفظ کے ترمیمی بل 2022 پربحث محرک بل کے ہونے کی وجہ سے موخر کردیاگیا۔