پچھلے 8 ماہ میں عدلیہ نے جو حالات پیدا کئے ہیں اس کا ازالہ کریں، ماضی میں عدلیہ بحالی کیلئے ہمیں اتحادی حکومت چھوڑنی پڑی

کیا جنرل باجوہ اور دیگر اس بات کا جواب دینگے کہ دہشتگردوں سے کس کے کہنے پر مذاکرات کیے گئے؟ ، وزیر دفاع کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال

اسلام آباد (ویب نیوز)

قومی اسمبلی کے فلور پروزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جب ججز ہماری حدود میں داخل ہونگے تو ہم بھی سوال اٹھائیں گے،سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ فل کورٹ تشکیل دے کر پاناما کیس سے لیکر تمام کیسز پر نظر ثانی کی جائے۔ خواجہ آصف نے سوال کیاکہ آج تک اس ملک میں کس طبقے کا احتساب ہوا ہے ؟ کیا جنرل باجوہ اور دیگر اس بات کا جواب دینگے کہ دہشتگردوں سے کس کے کہنے پر مذاکرات کیے گئے؟ کیا چند اشخاض جنہوں نے طالبان کو واپس لاکر بسایا، ان کا احتساب ہوگا؟   قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سوموٹو کیس سے متعلق کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں، اس کے اثرات موجودہ حالات کے ساتھ مستقبل پر بھی منفی پڑ سکتے ہیں، پورا سپریم کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرے، مختلف فریق سے پوچھے اور ایسا حل دے جو آنے والے وقت میں آب حیات ہو۔ جب وہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر ہماری حدود میں تجاوز کریں گے تو آواز اٹھانا ہمارا بھی حق بنتا ہے، انہوں نے اپنی کرسیوں کے تقاضے پورے نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی حکومت ختم کرکے زیادتی کی گئی، میں اپنی حدود کراس کرنا نہیں چاہتا، میں تنقید کرنا نہیں چاہتا، اچھی بات یہ ہے کہ 9 رکنی بینچ بنایا گیا ہے، یہ فیصلہ 9 ججز نہیں بلکہ فل کورٹ کو سننا چاہیے، پوری کورٹ فریقین کو سن کر فیصلہ کرے، پوری قوم عدالتی فیصلوں سے متاثر ہوتی ہے۔ معزز ایوان کے فلور پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک شکایت رہتی ہے کہ پارلیمنٹیرینز ججز کا نام لے کر تنقید کرتے رہتے ہیں، کچھ ججز پر تنقید کی جاتی ہے تو کچھ پر کیوں نہیں ہوتی؟جسٹس ثاقب اور جسٹس کھوسہ پر تنقید ہوتی ہے تو جسٹس ناصرالملک پر کیوں نہیں ہوتی؟ یہ سوال عدلیہ کے لیے ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ جب ججز ہماری حدود میں داخل ہونگے تو ہم بھی سوال اٹھائیں گے۔خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے 8 ماہ میں عدلیہ نے جو حالات پیدا کئے ہیں اس کا ازالہ کریں۔ ماضی میں عدلیہ بحالی کے لئے ہمیں اتحادی حکومت چھوڑنی پڑی۔ میرے گھر پر مذاکرات ہوئے تھے جس میں ایک جج بھی شامل تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ دو اسمبلیوں کی تحلیل درست ہوئی ہے یا نہیں؟ آئین کو ری رائٹ کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے،جس طرح آرٹیکل 63 کو ری رائٹ کیا گیا ہے یہ اس کے اثرات ہیں۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اس وقت ساری نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ جیل بھرو تحریک فلاپ ہوگئی ہے اب ڈوب مرو تحریک چلانی چاہیئے۔شاہ محمود قریشی کل گرفتاری ہوا ہے آج رورہا ہے۔ ہمارا تو 90 دن کا ریمانڈ لیا جاتا تھا۔خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے دہشتگردی میں 86 ہزار جانیں گنوائی ہیں۔ کیا ہم خود احتسابی کریں گے کہ کن لوگوں نے ان کو دوبارہ بسایا؟ عوام، پولیس، افواج کی جانیں خطرے میں ہیں، کسی کو احساس ہے؟وزیردفاع نے مزید کہا کہ پاکستان بنانے والے عمران خان کی طرح اسپانسرڈ لوگ نہیں تھے۔ اس شخص نے اپنے تمام محسنوں کو گالیاں دی ہیں۔ کہتا ہے کہ امریکا نے سازش کی اور اب کہتا ہے کہ امریکا نہیں جنرل باجوہ نے سازش کی۔اس کو جو ہاتھ کھلاتا ہے اسی ہاتھ کو کاٹتا ہے۔ اس شخص کی صورت میں قوم پر عذاب لیکر آئے۔ خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ جنرل(ر)قمر جاوید باجوہ اور جنرل(ر)فیض حمید سے کوئی پوچھنے والا ہے؟ دونوں جرنیلوں نے افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجوئوں کو واپس پاکستان لا کر بسایا اور ہمیں بتایا گیا وہ پرامن رہیں گے اور پھر پشاور مسجد میں 100 سے زیادہ لوگ مار دیئے گئے۔ خواجہ آصف نے سابق وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو سے متعلق ایک واقعہ بھی بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے پرویز الہی نے خود بتایا کہ ایک بیوروکریٹ کی بیٹی کی شادی پر گیا تو وہاں ایک بندہ پیسے اکٹھا کر رہا تھا، جب اس سے پوچھا کہ کتنے پیسے اکٹھے ہوئے ہیں تو جواب ملا کہ 72 کروڑ اکٹھے ہوگئے ہیں اور ابھی کام جاری ہے، اس بندے نے بتایا کہ اس مرتبہ پیسے کم ہوئے ہیں، اس سے پہلے ان کی بیٹی کی شادی پر ایک ارب 20 کروڑ روپے اکٹھے ہوئے تھے۔ وزیر دفاع نے برطرف وزیراعظم نواز شریف سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے چلے جائیں کہ جب اعلی عدلیہ نے اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 63-اے کو ری رائٹ کیا، یہ ان کا کام نہیں تھا اور جس آئینی بحران کا ہم اس وقت سامنا کررہے ہیں یہ اس کا براہِ راست اثر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورا ملک سیاسی، معاشی اعتبار سے رک جانے کے قریب پہنچا ہوا ہے، یہ سارا سلسلہ اگر جانا ہے تو اس وقت جو لوگ ملوث تھے ان سب کے براہِ راست اور بالواسطہ اعترافات بھی آچکے ہیں کہ پاناما کیس میں نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ جس طرح زیادتی ہوئی، انہیں تاحیات نااہل کیا گیا، کون سا ایسا ادارہ ہے جس کے کسی فرد کو کوئی اور ادارہ نااہل کردے، یہ کہاں کی مثال، کہاں کا قانون ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اس وقت سے شروع ہونا چاہیے، اسٹیبلشمنٹ کے بھی اعترافات موجود ہیں کہ ہم نے اس میں مداخلت کی، عدلیہ کے اعترافات بھی موجود ہیں کہ اس کیس میں تجاوز ہوا تھا بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت، شاہ محمود قریشی بھی ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اس ایوان کے توسط سے میری عدالت عظمی سے درخواست ہے کہ پوری کورٹ کا بینچ بنا کر پاناما سے شروعات کریں، اس ملک اور خصوصا سیاسی برادری کے ساتھ آئینی اور قانون کے لبادے میں جو زیادتی ہوئی ہے، ایک ایسے شخص کو مسلط کیا گیا کہ جس نے 4 سے 5 سال کے اندر ملک کو تہہ و بالا کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کا حق استعمال کیا گیا لیکن ساتھ ہی حکومت تحلیل کردی گئی اور جس نے کی وہ آج بھی صدارتی محل میں بیٹھا ہوا اور آئین کی دفعہ 6 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے کیا کسی نے اس بات کا نوٹس لیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹھیک ہے کہ اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی بحال کردی لیکن بجائے اس کے باقی قانونی مراحل بھی اسی طرح طے ہوتے 63-اے کی دوبارہ تشریح کردی گئی پھر مسلم لیگ(ن)کی حکومت پنجاب میں جس طرح تحلیل ہوئی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس کو بھی دیکھا جائے کہ اسمبلیاں سیاسی وجوہات پر تحلیل کی گئیں یا عوامی مفاد میں، یا آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کی گئی، یہ تمام سوالات جواب چاہتے ہیں، جو ہمارے پاس تو ہے لیکن انصاف کا ترازو اعلی عدلیہ کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تنقید نہیں کرنا چاہتا کہ بینچ میں ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں کہ جن کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے لیکن پوری کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کو سنے تو گزشتہ 8 ماہ میں جو کچھ ہوا اسے ری ایڈریس کیا جاسکتا ہے۔ مسلسل بحران میں رہنے کی وجہ سے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ہی نہیں کسی ملک کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک بندہ باہر گاڑی میں بیٹھا ہوا ہے اسے عدالت بلا رہی ہے، اسے عدالت کہہ رہی ہے کہ آجا وہ نہیں آتا، لاڈ پیار سے کہتے ہیں، قانونی و آئینی طور پر کہتے ہیں وہ نہیں آتا جب کہ ہماری تو ایک مرتبہ میں ہی ضمانتیں منسوخ ہوجاتی ہیں۔