• آصف زرداری نے کہا مذاکرات غیر مشروط ہونے چاہئیں، یہ خوش آئند ہے، ملک کو بھنور سے نکالنے کیلئے پہلی ضرورت نئے انتخابات ہیں
  • کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے فیصلوں پر تنقید بلاوجہ ہے، معاملے پر قومی اسمبلی میں ان کیمرہ سیشن بریفنگ میں شہباز شریف، بلاول موجود تھے
  • دہشت گردی ایک لعنت، ہمیں مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے، نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے، وائس چیئرمین پی ٹی ؤئی کانٹرویو

اسلام آباد (ویب نیوز)

پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت کی مذاکرت کی کوئی نیت نہیں، یہ کہتے کچھ اورکرتے کچھ ہیں، یہ آئین کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں،کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے فیصلوں پر تنقید بلاوجہ ہے،اس معاملے پر قومی اسمبلی میں ان کیمرہ سیشن میں بریفنگ دی گئی، شہباز شریف، بلاول بھٹو، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت سب تھے۔ ایک انٹرویو میں شاہ محمودقریشی نے کہاکہ بات چیت کے لیے پیرا میٹرز طے کرنا ہوں گے، ایک طرف ڈائیلاگ کی بات دوسری طرف انتقامی کارروائی کر رہے ہیں، علی زیدی اور سیکرٹری جنرل کے پی علی امین گنڈاپور گرفتار ہیں، میں روز پیشیاں بھگتا رہاہوں،عمران پر نئے کیسز بنائے جا رہے ہیں، مذاکرت کی ان کی کوئی نیت نہیں، یہ کہتے کچھ اورکرتے کچھ ہیں، یہ آئین کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں، سپریم کورٹ کو تقسیم کرنیکی کوشش کررہے ہیں، یہ توہین عدالت کر رہے ہیں،ملک کو انارکی میں دھکیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بات چیت سے کبھی انکار نہیں کیا مگر پہل حکومت کرتی ہے، ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں اس کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ آصف زرداری نے کہا ڈائیلاگ غیر مشروط ہونا چاہیے، یہ خوش آئند ہے، ملک کو بھنور سے نکالنے کے لیے پہلی ضرورت نئے انتخابات ہیں، آصف زرداری کہتے ہیں اعتراض الیکشن پر نہیں وقت پر ہے، الیکشن کی ٹائمنگ آپ کے کنٹرول میں نہیں، دو اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں، آئین میں یہ قدغن ہے کہ 90 دن کے اندر انتخابات ہونے ہیں، ٹائمنگ آصف زرداری نے طے کرنی ہے نہ شہباز شریف اور نہ میں نے، بلوچستان، سندھ اور قومی اسمبلی کے انتخابات پربات چیت ہوسکتی ہے، اس پر بات چیت کے ذریعے ہم ایک وقت میں الیکشن پر متفق ہوسکتے ہیں۔کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستانی طالبان کو واپس آنا تھا تو فیصلہ ہوا کہ انہیں مین اسٹریم کیا جائے، طالبان کو مین اسٹریم کرنے کے لیے شرائط رکھی گئی تھیں، انہیں کہا گیا کہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا ہے، افغانستان سے ہتھیار لیکر نہیں آنا، یہاں آ کر امن سے رہنا ہے، ان کو ری ہیبلیٹیٹ کرنا تھا۔شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ اس معاملے پر قومی اسمبلی میں ان کیمرہ سیشن میں بریفنگ دی گئی، شہباز شریف، بلاول بھٹو، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت سب تھے، جو آج اعتراضات کر رہے ہیں وہ سب بریفنگ میں بیٹھے تھے، بریفنگ کے بعد فیصلہ ہوا کہ آگے بڑھنا ہے اور لائحہ عمل بنانا ہے، پھر ہماری حکومت رخصت ہوگئی، رخصتی کے بعد جو حکومت آئی ذمہ دار تو وہ ہیں۔رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہمارے دور حکومت میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آئی، ایک سال میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، ذمہ دار ہم کیسے ہوسکتے ہیں؟ سوات میں لوگ آنا شروع ہوئے تو کیا ہم نے نشاندہی نہیں کی؟ مراد سعید اور ہمارے دیگر لوگوں نے وہاں لوگوں کو موبلائز نہیں کیا؟ کیا رانا ثنا اللہ نے یہ بیان نہیں دیا کہ یہاں کوئی باہر سے لوگ نہیں آئے؟ ا نہوں نے کہا کہ یہ اب ساری ذمہ داری پیچھے کی طرف منتقل کر رہے ہیں، کوئی سیاسی جماعت اکیلے فیصلہ نہیں کرسکتی، حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہے، دہشت گردی ایک لعنت ہے، ہمیں مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے، نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔