ضمانت کے مقدمات میں ہائیکورٹ کے لا متناعی احکامات کو دیکھ رہے ہیں، جسٹس سردار طارق مسعود

چوہدری پرویز الہی کی بار،بارگرفتاری کیخلاف ان کی اہلیہ قیصرہ الہیٰ کی جانب سے دائردرخواست پر ریمارکس

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے سینئر ترین جج سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ضمانت کے مقدمات میں ہائیکورٹ کے لا متناعی احکامات کو دیکھ رہے ہیں بندہ حاضر نہیں پھر بھی ضمانتیں ہو رہی ہیں ،ہائیکورٹس کیسے کہہ رہی ہیں کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کیا جائے ۔کس قانون کے تحت ہائیکورٹ ایسے گرفتاریوں سے روکنے کے حکم دے سکتی ہے ۔ ملزم کو کسی دوسرے کیس میں گرفتار نہ کیا جائے یہ فیصلہ کس قانون کے تحت ہے۔اسلام آباد میں بھی عدالت نے اس قسم کا آرڈر جاری کیا۔کیا عدالتیں ملزم کو جرم کرنے کا لائسنس دے رہی ہے۔ہم نے اور ان ججز نے بھی قانون کے تحفظ اٹھایا ہے۔فیصلہ دیا جاتا اب ملزم کی گرفتاری عدالت کی اجازت سے ہوگی۔وہ ملزم ضمانت پر رہا کرکے دو بندے قتل کردے پولیس کچھ نہ کرے۔پولیس کیا ملزم کے سامنے ہاتھ جوڑ کر پہلے عدالتی اجازت لے پھر گرفتار کرے۔پاکستان تحریک انصاف کے صدر اورسابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کی بار،بارگرفتاری کیخلاف ان کی اہلیہ قیصرہ الہیٰ کی جانب سے دائردرخواست پروکیل سردارمحمد لطیف خان کھوسہ نے تیار ی کیلئے وقت مانگ لیا۔جسٹس سردارطارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس مس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس سماعت غیر معینہ مدت تک ملتو ی کردی۔ آئندہ تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ دوران سماعت عدالت نے لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ گمشدگی سے متعلق کیس میں ہائیکورٹ کو کیا احکامات دینے چاہیے تھے۔ اس پر وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھاکہ عدالت مہلت دے تو اس نکتہ پر دلائل دو ں گا۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آزادی بنیادی حق ہے،پھر یہ حق پاکستان کے ہر شہری کو ملنا چاہیے ،شیخ رشید کو اٹھایا گیا ہے۔ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کا مقدمہ ہمارے سامنے نہیں، کس قانون کے تحت ہائیکورٹ ایسے گرفتاریوں سے روکنے کے حکم دے سکتی ہے،اگر سپریم کورٹ اس کیس کو غیر موثر کہتی ہے تو پھر پاکستان کے مقدر کا اللہ ہی حافظ ۔جسٹس مس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مقدر چند لوگوں کے ساتھ نہیں۔ جسٹس سردار طارق کا کہنا تھا کہ غلط اٹھانے والے کے خلاف جائیں پرچے کروائیں ۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ 9 مئی کی گرفتاری پر عدالت نے چیرمین پی ٹی ائی کو چھوڑنے کا حکم دیا۔ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال کیا کہ کونسا گھڑی والا کیس ؟ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ وہاں معاملہ اور تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ یہاں تو سیدھی گھڑی ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم صورتحال سے خوش ہونے کا نہیں کہہ رہے صرف قانون کا کہہ رہے ہیں۔۔وکیل لطیف کھوسہ کادلائل میں کہنا تھا کہ پرویز الہی کو ایک کیس میں ضمانت ہوتی ہے دوسرے میں پکڑ لیتے ہیں۔لطیف کھوسہ کا کہنا تھ اکہ یہ بھی مذاق ہے ضمانت کے بعددوسرے کیس میں پھر گرفتار کر لیتے ہیں۔اس پر سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ یہ مذاق تو ستر سے ہو رہا ہے۔آپ قانون کا بتائیں قانون کیا کہتا ہے۔پرویز الہی ضمانت کیس میں دلائل کے دوران وکیل لطیف کھوسہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور کہا کہ میرے موکل پرویز!لہی کو لاہور میں دن کے وقت بغیر کپڑے پہنے اہلکاروں نے پکڑ لیا۔اس پرسردار طارق مسعود نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہ کھوسہ صاحب کیا گرفتار کرنے والے دن کے وقت بغیر کپڑوں کے پرویز الہی کو گرفتار کرکے لے گئے۔اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میرا مطلب ہے بغیر یونیفارم والوں نے گرفتار کیا۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ صرف دو سوالوں کے جواب دے دیں، کیس غیر موثر ہو گیا تو کیسے آگے چلائیں؟جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ کیا ہائیکورٹ ایسا حکم دے سکتی ہے کہ ایک شخص کو کسی بھی کیس میں گرفتار نا کرو؟ ہائیکورٹ کس طرح ایک آرڈر سے تمام کیسز میں ضمانت دے رہا ہے؟ قانون کے مطابق ملزم کو ضمانت کے لیے خود پیش ہونا پڑتا ہے، 1976 سے پہلے تو روبکار دکھا کر پولیس گرفتار کر لیتی تھی،بھٹو صاحب کے دور میں ایف آئی آر دکھا کر گرفتاری کا قانون آیا۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ، بھٹو صاحب کے دور میں یہ قانون ظہور الہی کے لیے آیا تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھاکہ آج کل ہائیکورٹ میں بندہ پیش نہیں ہوتا اورضمانتیں دے دی جاتی ہیں،یہ تو لائسنس ٹو کرائم والی بات ہے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ ضمانتیں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر ہو رہی ہیں۔ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ پھر یہ قانون عام بندے کے لیے بھی رکھیں نا، سب کو یہ حق دیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پرویز الہی کے خلاف لاہور ہائیکورٹ نے ایم پی او کیس میں حکم دیا کہ گرفتار نا کیا جائے، اب جب اسلام آباد پولیس نے گرفتار کر لیا ہے تو لاہور ہائیکورٹ کیا کرے؟ لاہور ہائیکورٹ کیا حکم کر سکتا تھا؟ یہ نا سمجھیں کہ جو ہو رہا ہے اس سے ہمیں خوشی ہو رہی ہے، قانونی سوالات اٹھتے ہیں جن پر جواب دیں،لاہور ہائیکورٹ کیسے اسلام آباد میں درج ایف آئی آر کو ختم کر سکتی ہے؟ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ پرویز الہی قانون طور پر حراست میں لیے گئے ہیں۔ وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ وہ آرڈر کر سکتی ہے جو سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کیس میں کیا۔اس پر جسٹس سردار طارق مسعودنے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ گھڑی کو بہت پیچھے نا لے جائیں، اسی کیس پر رہیں۔لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جو ٹی وی پر بیٹھ کر مزمت نہیں کرتا اس کو نہیں چھوڑا جارہا ہم انسان ہیں کسی جنگل میں نہیں رہ رہے،اس ملک کے آئین اور بنیادی حقوق کو کچلا جارہا ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھاکہ اکثر باتیں ہمیں بہت دیر بعد یاد آتی ہیں۔لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے غنڈے آئے اور سابق وزیر اعلیٰ کو اٹھا کر لے گئے۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ کھوسہ صاحب قانون کی بات کریں آپ جذباتی نہ ہوں، جن کو آپ غنڈے کہہ رہے ہیں ہائیکورٹ نے لکھا وہ اسلام آباد پولیس تھی۔سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ کشمیر والا سلوک کیا جارہا ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ ملک کے لیے کشمیر کی مثال نہ دیں وہ بھارت مظالم کر رہا ہے، اپنے ملک کے لیے یہ نا کہیں۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ مثال کیسے نہ دوں پھر ہمارے ساتھ یہ سلوک بند کیا جائے، دن کو بغیر کپڑوں کے غنڈوں کیطرح پرویز الہی کو گرفتار کیا جاتا ہے۔اس پر جسٹس سردار طارق مسعودکا کہنا تھا کہ مطلب دن کو کپڑے پہنے بغیر لوگوں نے گرفتار کیا؟جبکہ جسٹس سردار طارق مسعود کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میرا مطلب تھا کہ بغیر یونیفارم کے چند افراد نے گرفتار کیا۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کل یا پیر کو رکھ لیں۔اس پر  جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ پیر کو تو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس ہوگا۔ جسٹس سردار طارق مسعودکا کہنا تھا کہ یہ یک سادہ سا کیس ہے آپ ہمیں غیر متعلقہ معاملات میں الجھانا چاہتے ہیں، عدالت قانون کے مطابق چلے گی۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ریاستی ایجنسیوں کو عدالتی حکم کی توہین اور حقوق پامالی کی اجازت نہیں،25 کروڑ عوام کے حقوق کا سوال ہے۔ اس پر جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ خود کیس کی تیاری کر کے نہیں آئے اور بات ہم پر ڈال رہے ہیں،دوران سماعت معاون وکیل سردار عبدالرازق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کو بھی بوگس کیس میں پکڑ لیا گیا ہے۔ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ زبانی باتیں نہ کریں ،شیخ رشید کا کیس ہمارے سامنے نہیں ہے۔