روس یوکرین تنازع سفارتکاری کے ذریعے حل ہونا چاہیے،دورہ روس پر بریفنگ
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ دورہ روس سے پہلے امریکی انتظامیہ نے ہم سیاعلی سطح پر رابطہ کیا، ہمیں پیغام دیا گیا مگر ہم جوں کے توں رہے۔ وزیراعظم عمران خان اور پیوٹن میں افغانستان، مقبوضہ کشمیر اور خطے کے امن پر بات کی گئی، روس کی گوادر میں ایل این جی ٹرمینل لگانے میں دلچسپی ہے، روس یوکرین تنازع سفارتکاری کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس کے حوالے سے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی روسی صدر پیوٹن سے ملاقات ہوئی، وزیراعظم کی روسی صدر کے ساتھ ساڑھے 3 گھنٹے ملاقات جاری رہی، وزیراعظم روسی صدر کی دعوت پر روس گئے تھے، توانائی کے شعبہ میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا، مقبوضہ کشمیر اور خطے کے امن پر بات ہوئی، اسلاموفوبیا پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ زیادہ تر افغانستان اور جنوبی ایشیا پر بات چیت کی گئی، صدر پیوٹن کے ساتھ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کا جائزہ لیا گیا، پاکستان، روس کے دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئی ہے، وزیراعظم سے روسی نائب وزیراعظم اور وزیر توانائی کی بھی ملاقات ہوئی، نارتھ ساتھ گیس پائپ لائن پر گفتگو ہوئی۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے روس سے گیس کی خریداری پر بات چیت کی، گوادر میں ایل این جی ٹرمینل لگانے میں روس نے دلچسپی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال تشویشناک ہے ، وزیراعظم نے روس کو مقبوضہ کشمیر کی تشویشناک صورتحال سے آگاہ کیا، زیادہ تر افغانستان اورساتھ ایشیاپرگفتگوہوئی، روس بھی چاہتاہے کہ افغانستان میں امن واستحکام ہو۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے دورے سے قبل ٹیلیفون پر بھی صدر پیوٹن سے بات کی تھی،ہوٹل واپسی پر روس کے ڈپٹی وزیراعظم سے ملاقات ہوئی ، ڈپٹی وزیراعظم سے دوطرفہ تعلقات ،سرمایہ کاری پر بات ہوئی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ توانائی شعبے میں بہتری اور روس سے گیس کی خریدی پر دلچسپی کا اظہارکیا، ازبکستان سے براستہ افغانستان پاکستان کوروس سے گیس ملے سکے۔دورہ روس کے حوالے سے انھوں نے مزید بتایا کہ وزیراعظم روس میں تاجروں سے بھی مخاطب ہوئے، ہم نے روسی تاجروں سے سرمایہ کاری پر بات چیت کی، روسی تاجروں کو بتایا گیا پاکستان میں کہاں کہاں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں ، مارچ کے آخرمیں اسلام آباد میں انویسمنٹ کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے، بہت سے لوگوں نے اس کانفرنس میں شامل ہونیکااعادہ بھی کیا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے دوسری جنگ عظیم کی یادگارپربھی حاضری دی اور وطن واپسی سے پہلے ماسکو کی گرینڈ مسجد کا بھی دورہ کیا، وزیراعظم نے اس مسجدکے خطیب سے بھی بات چیت کی، انہوں نے بتایابہت بڑی مسلمانوں کی تعدادیہاں رہتی ہے۔وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ روس کیساتھ توانائی میں تعاون بڑھانا ہماری معیشت کیلئے ضروری ہے، روس میں جو نشستیں ہوئیں اس میں پاکستان کی کمٹمنٹ واضح ہے، روس سے لانگ ٹرم تعلقات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔افغانستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آج افغانستان سے متعلق روس اورپاکستان کے سوچ کے زاویے قریب تر ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ انسانی اورمعاشی بحران سے افغان عوام کو کیسے بچایا جائے ، چین میں 30اور31مارچ کو افغانستان سے متعلق تیسری نشست پر بات ہوگی ، روس کے وزیرخارجہ بھی اس نشست میں شریک ہوں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں علاقائی عدم توازن کو توقعات کی بنا پر دیکھ رہے ہیں، ان ڈیولپمنٹ پربھی روشنی ڈالی گئی جس سے خطے کوخطرات لاحق ہوسکتے تھے، روس یوکرین تنازع راتوں رات میں جنم لیا اسکی تاریخ ہے جوچلی آرہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ روس اوریوکرین تنازع سفارت کاری سے حل ہوناچاہیے، پاکستان کاموقف ہے دو ممالک کی جنگ میں سب کا نقصان ہوتا ہے۔وزیر خارجہ نے بتایا کہ روس جانے سے پہلے امریکا نے اعلی سطح پر رابطہ کیا، امریکا نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔۔ ہم نے دورے کا پس منظر اور مقاصد بتائے اور جوں کے توں رہے۔روس یوکرین تنازع کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اسوقت تیل کی قیمتیں 100ڈالر فی بیرل سے تجاوز کرچکی ہیں، روس یوکرین تنازع کی وجہ سے گندم کی قیمت میں 7فیصداضافہ ہوچکاہے۔انھوں نے کہا کہ یوکرین میں جوصورتحال جنم لیرہی اس پرپاکستان کاموقف پیش کیا، میں سمجھتاہوں وزیراعظم نے مناسب وقت اورمناسب جگہ پر اسکا ذکر کیا، پہلے دن سے کوشش خواہش رہی معاملہ سفارتکاری سے حل ہوناچاہئے، ماضی میں جولڑائی ہوئی اس سے ہماری معیشت اورقوم نے بھگتتی ہے۔یوکرین معاملے پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یوکرین کامعاملہ مزید بگڑنے سے بچانے کی سب کو کوشش کرنی چاہیے، مسئلہ نازک ہے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے، ابھی سفارتکاری کو رد نہیں کیا جا سکتا امکان موجود ہیں۔انھوں نے بتایا کہ جب ماسکوپہنچے توپاکستان میں تبصرے شرو ع ہوگئے، ایک بحث چلی کہ دورہ کرنا چاہئے تھا یا نہیں ہونا چاہئے تھا، بھارت میڈیا پر تو صف ماتم چھایا ہوا تھا، یہ تنقید غلط ہے کہ ہم نے بغیر سوچے سمجھے روس کا دورہ کیا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ روس جانے سے پہلے وزیراعظم نے اجلاس کیا،منجھے ہو ئے سابقہ سفارتکاروں کودعوت دی، ہمارے سابقہ 4 فارن سیکریٹریزبھی موجودتھے، 4 ایسے سفارتکاروں کو دعوت دی جنہوں نے ماسکو میں وقت گزارا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ڈپلومیٹک اسپیس کو بڑھایا جائے۔یوکرین میں پھنسے طلبا کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارے3 ہزار کے قریب اسٹوڈنٹس کومحفوظ مقام پرمنتقل کرنا ہے، پاکستانی طالبعلم کی ہلاکت کی خبرغلط ہے ایساباالکل نہیں ہے، ہم یوکرین میں تمام پاکستانیوں کی پوری مددکریں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم نے واضح کہا کہ ہم نے اب کسی کے مسئلے میں نہیں پڑنا، ہمارے امریکاسے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں، میں نے دیکھا یہاں کچھ لوگ پینک کررہے تھے، کچھ لوگوں کے ٹوئٹس پڑھے گھبرائے ہوئے تھے جبکہ میں نے وزیراعظم کو دیکھا کوئی گھبراہٹ نہیں ہشاش بشاش تھے۔