کیا یہ عدالت اس کیس میں کارروائی کو آگے چلائے؟ آپ کو اس پر اعتماد ہے؟،چیف جسٹس اطہر من اللہ
عدالت پر اعتماد نہیں ہو گا تو کس پر ہو گا؟ ،فواد چوہدری کا جواب
سیاسی قیادت ہی سوسائٹی میں تبدیلی اور صبر لا سکتی ہے، مذہب کو سیاسی مقصد کیلئے استعمال کرناخود توہین مذہب ہے، چیف جسٹس ہائیکورٹ
اس طرح 2018 میں بھی ہوا اور پہلے بھی ہوتا رہا، یہ بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے
ایک غیر ملکی کو سیالکوٹ میں مارا گیا اور مشال خان کا واقعہ بھی سامنے ہے، یہاں پر بھی جو کیسز درج ہو رہے ہیں وہ درست معلوم نہیں ہوتے،ریمارکس
اسلام آباد (ویب نیوز)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو مسجد نبوی واقعہ پر پی ٹی آئی قیادت کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج نہ کرنے کا حکم د یتے ہوئے قاسم سوری کی درخواست پروفاق اور دیگرکونوٹس جاری کردیا۔ جمعرات کوچیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے مسجد نبوی واقعہ پر فواد چوہدری، قاسم سوری اور شہباز گل کی درخواستوں پر سماعت کی جس سلسلے میں فواد چوہدری عدالت میں پیش ہوئے ،عدالت پی ٹی آئی رہنمائوں کی درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت کی جس دوران فواد چوہدری عدالت میں بیان دیا کہ میں حاضر ہو گیا ہوں، حیران ہوں ان کیسز پر، مارشل لا بھی رہا مگر کسی حکومت نے توہین مذہب کے قانون کواس طرح استعمال نہیں کیا، وزیر داخلہ کے بارے میں نہیں کہتا، مگر وزیر قانون پر حیرت ہے۔ فواد چوہدری نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے کوئی فساد تو نہیں کرانے، ایک دوسرے کی لاشوں پرچڑھ کر تو وزیر نہیں بننا ہوتا، ایسا رواج شروع کیا ہے کہ اس کے سنگین نتائج ہیں۔چیف جسٹس نے فواد چوہدری سے استفسار کیا کہ کیا یہ عدالت اس کیس میں کارروائی کو آگے چلائے؟ آپ کو اس پر اعتماد ہے؟ اس پر سابق وزیر نے کہا کہ عدالت پر اعتماد نہیں ہو گا تو کس پر ہو گا؟ ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی قیادت ہی سوسائٹی میں تبدیلی اور صبر لا سکتی ہے، مذہب کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا خود توہین مذہب ہے، اس طرح 2018 میں بھی ہوا اور پہلے بھی ہوتا رہا، یہ بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک غیر ملکی کو سیالکوٹ میں مارا گیا اور مشال خان کا واقعہ بھی سامنے ہے، یہاں پر بھی جو کیسز درج ہو رہے ہیں وہ درست معلوم نہیں ہوتے۔عدالت نے مسجد نبوی واقعہ پرکیسز کے خلاف قاسم سوری کی درخواست پروفاق اور دیگرکونوٹس جاری کردیا۔ایف آئی اے نے عدالت میں جواب کرایا جس میں موقف اپنایا کہ مسجد نبوی واقعہ کے تناظر میں کائونٹرٹیررازم ونگ اورسائبر کرائم ونگ میں کوئی کارروائی شروع نہیں ہوئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کے جواب کے بعد کہا کہ واقعہ پرمقامی پولیس نے کارروائیاں کی ہیں۔عدالت نے مسجد نبوی واقعہ پر پولیس کو مقدمات درج نہ کرنے کا حکم دے دیا۔