اگر افغانستان مسئلے کا فوجی حل ہوتا تو وہ نکل چکا ہوتا،بیان

اسلام آباد  (ویب ڈیسک)

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کہ افغانستان میں تشدد میں اضافے  پر ہمیں تشویش ہے ،  اشرف غنی کے الزامات بھی جاری ہیں پھر بھی ہمارا رویہ مثبت ہے ،افغانستان میں  امن کیلئے ہماری کوششیں ہمیشہ جاری رہیں گی۔۔افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا  کہ ہم افغانستان میں بہتری چاہتے ہیں وہاں کے عوام امن چاہتے ہیں، افغان امن عمل میں ہمارا کردار مثبت رہا ہے، اشرف غنی کے الزامات بھی جاری ہیں پھر بھی ہمارا رویہ مثبت ہے، آج بھی دوحہ میں امن مذاکرات میں پاکستانی وفد شامل ہے، اور امن کیلئے ہماری کوششیں ہمیشہ جاری رہیں گی۔وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مثبت کردار اور قیام امن کیلئے کوششیں، کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، آج دنیا افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کی مصالحانہ کوششوں کو سراہا رہی ہے، اور دوسری طرف افغانستان کے حالات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، افغانستان سے باہر ایک طبقہ تخریب کاری کا کردار ادا کر رہا ہے، یہ کہہ دینا کہ پاکستان نے ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا رکھی ہے یہ درست نہیں ہے، ہم عالمی اتفاق رائے کا حصہ ہیں، ہمارے مقاصد یکساں ہیں، خطے میں کچھ قوتیں امن کے مخالف کام کررہی ہیں، جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔انہوںنے کہا کہ ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے، اگر افغانستان مسئلے کا فوجی حل ہوتا تو وہ نکل چکا ہوتا، وہاں جتنا امن کا عمل بڑھا ہے وہ ہماری کوششوں سے بڑھا ہے، ہم افغانستان کے تمام  ہمسائیوں سے رابطے میں ہیں اور مل کر ایک مربوط حکمت عملی بنانا چاہتے ہیں، خطے میں تمام ممالک کو مل کر قیام امن کیلئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تشدد میں اضافے  پر ہمیں تشویش ہے، ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بزورِ بازو افغانستان میں مسلط ہو، ہم ان کے معاملات میں مداخلت نہیں چاہتے، لیکن اچھے ہمسائے کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار تھے اور تیار ہیں، ہم نے بارڈر فینسنگ اس لیے کی کہ ناپسندیدہ عناصر کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے، ہم بارڈر کی نقل و حرکت ریگولیٹ کرنا چاہتے ہیں، 25 سے 30 ہزار لوگ روزانہ بارڈر کراس کرتے ہیں، ہمیں تشویش ہے کہ ایسے عناصر  داخل نہ ہوں جو حالات خراب کریں، ہمیں یہ بھی ادراک ہے کہ افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے، ہمیں اس کیلئے درمیانہ راستہ اختیار کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بھارت کا رویہ افسوسناک تھا، عالمی برادری اور سلامتی کونسل کو اس کانوٹس لیناچاہیے تھا، ہم سلامتی کونسل کے ممبر نہیں لیکن افغانستان کی صورتحال سے زیادہ متاثر پاکستان ہوا ہے، ہم سلامتی کونسل میں اپنا نکتہ نظر پیش کرنا چاہتے تھے، پاکستان نے اس ضمن میں بھاری قیمت ادا کی ہے، اگر خدانخواستہ افغانستان میں حالات مزید خراب ہوتے ہیں تو سب سے پہلے متاثر پاکستان ہو گا، بھارت کو ایک ماہ کیلئے سلامتی کونسل کی صدارت کی عارضی ذمہ داری سونپی گئی اسے ذمہ دارانہ رویہ اپنانا چاہیے تھا جو بدقسمتی سے اس نے نہیں کیا، بھارت کارویہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور جیسا ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ اور یو اے ای سے ہماری پابندیوں پرنظرثانی کیلئے بات جاری ہے، ہم نے ان کے سامنے کورونا کے اعداد و شمار رکھے ہیں، ہم نے ان سے کہا ہمارے ہاں بھارت جیسی بھیانک صورتحال نہیں ، ہماری رائے میں، کورونا وبا سے متعلقہ پابندیوں کے فیصلے سیاسی نہیں، سائنسی بنیادوں پر ہونے چاہئیں، ہمیں توقع ہے کہ اگلے اجلاس میں وہ پاکستان کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پابندیوں کے فیصلے پر نظر ثانی کریں گے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ جو پاکستانی باہر رہتے ہیں وہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، ہم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سہولت کیلئے روشن ڈیجیٹل سکیم کا آغاز کیا، جولائی میں 2 ارب ڈالر سے زیادہ ترسیلات زر آئیں، اوورسیز پاکستانیوں کی شکایات سننے کیلئے ایف ایم پورٹل بنایاہے، اس پورٹل پر وہ اپنی شکایات درج کرواسکتے ہیں، پورٹل سے لوگوں کی مشکلات کا اندازہ ہوگا،اور انہیں حل کرنے میں مدد ملے گی،  آزمائشی طور پر پانچ بڑے سفارت خانوں میں اسے رائج کر دیا گیا، ہم بتدریج اس کا دائرہ کار تمام مشنز تک پھیلائیں گے تاکہ سب اس سہولت سے مستفید ہو سکیں۔