کراچی :مالی سال 2020-21میں 15.40بلین ڈالرز کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ہوئی

کراچی(ویب  نیوز)زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں کاٹن، کاٹن یارن، بجلی، گیس ، پانی ، لیبر چارجز، سی پورٹ چارجز اور ٹرانسپورٹیشن چارجز دیگر ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی مقابل سب سے زیادہ ہیں۔باوجود اس کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی محنت اور کوششوں سے مالی سال 2020-21میں 15.40بلین ڈالرز کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ہوئی کیونکہ حکومت نے پاکستان میں کرونا کی بہتر صورتحال کی وجہ سے لاک ڈائون کے دوران ایکسپورٹ انڈسٹریز کو کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ٹیکسٹائل سیکٹر ملک کی مجموعی ایکسپورٹس میں 60فیصد حصہ فراہم کرتا ہے ، سب سے زیادہ زرمبادلہ کماتا ہے اور سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے مگر اس کے باوجود یہ سیکٹر حکومت کی حقیقی توجہ حاصل نہ کرسکا۔چیئرمین پاکستان اپیرئل فورم محمد جاوید بلوانی نے کہا کہ پاکستان میںدیگر علاقائی ممالک کی نسبت کرونا وباء کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور نئے ایکسپورٹ آرڈر حاصل کئے۔تاہم اب مسابقتی ممالک بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈیا اور ویتنام میں کرونا صورتحال بہتر ہونے اور پاکستان میںکاٹن اور کاٹن یارن کی قلت اور صنعتوں کو چلانے کی بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے پاکستانی ایکسپورٹرز کو مسابقت میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔حکومت کاٹن کی پیداوار، کاشت کے رقبہ کو بڑھانے کیلئے خصوصی اقدامات کرے کیونکہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری سے منسلک پوری چین کا دارومدار کاٹن کی پیداوار اور کاٹن یارن کی دستیابی سے وابستہ ہے۔ کاٹن کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل سیکٹر متاثر ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ کاٹن یارن کی عدم دستیابی ہے۔صورتحال حکومت کی قلیل مدتی، درمیانہ مدت اور طویل مدتی منصوبہ بندی کا تقاضہ کرتی ہے۔حکومت کاٹن کی کاشت کیلئے عمدہ معیار کے بی ٹی بیج کاشتکاروں کو فراہم کرے اور فرٹیلائزر اور پیسٹی سائیڈز سبسڈی کے تحت دے تاکہ کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ کاٹن کی پیداوار بڑھا سکیں۔جبکہ کاٹن کی پیداوار ملک میں 15ملین بیلز تک نہ پہنچ جائے حکومت کاٹن اور کاٹن یارن کی امپورٹ سے کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے دنیا بھر سے ڈیوٹی فری امپورٹ کی مکمل اجازت دے۔اسپننگ سیکٹر ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بلیک میل کر رہا ہے اور کاٹن یارن کے لئے کئے گئے آرڈرز سے منحرف ہو رہا ہے۔حکومت کا اسپننگ سیکٹر کو بلاجواز تحفظ دینے کی وجہ سے ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل سیکٹر شدید متاثر ہو رہا ہے۔اگر پاکستان میں اسپننگ سیکٹر نہ ہوتا تو پاکستان کے ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس بنگلہ دیش سے ذیادہ ہوتی۔کاٹن اور کاٹن یارن ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل کیلئے خام مال کا درجہ رکھتے ہیں لہٰذا ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر کی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ حکومت نے جس طرح انڈیا سے واہگہ بارڈر کے رستہ ادویات امپورٹ کرنے کی مکمل اجازت دی ہوئی ہے اسی طرح کاٹن اور کاٹن یارن کو بھی انڈیا سے براستہ واہگہ بارڈر امپورٹ کرنے کی مکمل اجازت دے جو سب سے چھوٹا روٹ ہے۔یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سامان کی سمندری رستہ نقل و حمل کے فریٹ چارجز میں تقریباً 700فیصد اضافہ ہو چکا ہے ، مال بردار بحری جہاز اور کنٹینرز بھی دستیاب نہیں اور سمندری راستہ امپورٹ کا دورانیہ بھی اس صورتحال میں 45دنوں سے بڑھ کر 90دن ہو چکا ہے۔ کاٹن اور کاٹن یارن امپورٹ کرنے کا سب سے چھوٹا اور قلیل مدتی راستہ انڈیا سے زمینی راستہ واہگہ بارڈر ہے یا پھر ازبکستان سے براستہ افغانستان امپورٹ کرنا ہے۔لہٰذا حکومت سے اپیل ہے کہ جس طرح انڈیا سے واہگہ بارڈر کے رستہ ادویات امپورٹ کرنے کی مکمل اجازت ہے اسی طرح کاٹن اور کاٹن یارن کو بھی انڈیا سے براستہ واہگہ بارڈر امپورٹ کرنے کی مکمل اجازت دے۔