اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ جو دہشت گرد سوات میں بچیوں کے اسکولوں پر حملے کرتے ہیں ہم ان سے کس کے کہنے پر اور کیا مذاکرات کررہے ہیں؟ اسلام آباد میں جاری بین الاقوامی عدالتی کانفرنس کے دوسرے روز خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ نبی پاکۖ کی تعلیمات پر عمل نہ کرنا مسائل کی وجہ ہے، سوات میں بچیوں کے جس اسکول پر حملہ ہوا وہ پانچ سال تک بند رہا، کئی تعلیمی اداروں کو اڑا دیا گیا، غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل بھی یہاں مسئلہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ایمان عورتوں کی عزت کا درس دیتا ہے، قرآن میں بھی عورت کے احترام کا حکم دیا گیا ہے اور ہم ان ہی دہشت گردوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی اجازت کس نے دی؟ ہم ان دہشت گردوں سے کس کے کہنے پر اور کیا مذاکرات کر رہے ہیں؟ دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے کی کس نے آفر دی؟انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ملک کا ایک بڑا حصہ زیر آب آیا، عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہمیں دنیا کی طرف دیکھنے کے بجائے خود عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ججوں، بیورو کریٹس اور فوجی افسران کو کاریں دینا بند کریں، سرکاری خزانے میں غریب تو اپنا حصہ ڈال رہا ہے لیکن وہ پیدل چلتا ہے، سائیکل پر سفر کرتا ہے، وہ پیسہ سائیکل کے راستوں، پیدل چلنے کے راستوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر خرچ کیا جائے،مغرب کہتا ہے پیدل چلیں یا سائیکل اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔سوال و جواب کا سیشن ہوا، جس میں سوال کیا گیا کہ جی ایچ کیو میں آئینی و بین الاقوامی ایشوز سے متعلق ریسرچ اینڈ لیگل لا ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا ہے، عدلیہ ان سے کوآرڈینیشن کیوں نہیں کر رہی۔جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مجھے علم نہیں ہے کہ فوج نے کوئی ادارہ قائم کیا ہے، اگر وہ چاہیں تو میں انہیں یہ کوآرڈینیشن دینے کیلئے تیار ہوں کہ ٹینکس اور توپ خانہ کیسے چلاتے ہیں، اگر وہ آئینی یا بین الاقوامی ایشوز سے متعلق کوآرڈینیشن چاہتے ہیں تو مجھے یا کسی کو بھی دعوت دے سکتے ہیں ۔