منگل سے وزیر آباد سے دوبارہ مارچ شروع کریں گے، عمران خان کا اعلان

مارچ اگلے 10 سے 14 روز کے دوران راولپنڈی پہنچے گا وہاں سے مارچ کی قیادت کروں گا

سابق وزیراعظم اورچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب

لاہور(ویب نیوز)

پاکستان کے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ منگل سے وزیرِ آباد سے ان کی جماعت کا مارچ دوبارہ شروع ہو گا۔میں یہاں سے ہر روز مارچ کے شرکا سے خطاب کروں گا۔لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا لانگ مارچ اگلے 10 سے 14 روز کے دوران راولپنڈی پہنچے گا  اور وہ خود لوگوں سے پنڈی میں ملیں گے وہاں سے مارچ کی قیادت کروں گا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، دوبارہ مارچ شروع کررہے ہیں، یہاں پنجاب سے شاہ محمود قریشی قیادت کریں گے اور کے پی سے پرویز خٹک مارچ کی قیادت کریں گے۔عمران خان نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرے۔اس کے علاوہ انھوں نے سائفر کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ڈرامہ تھا، اگر ڈرامہ تھا تو اس کی تحقیقات کیوں نہیں کروا رہے۔ آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ایسے سائفر آتے رہتے ہیں، میں نے تو ایسے نہیں سنا کہ کسی سائفر میں سفیر کو کہا گیا ہو کہ وزیرِ اعظم کو ہٹا دیا جائے۔پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ان پر حملے کے واقعے کی ایف آئی آر درج نہ ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں طاقتور قانون سے بالا تر ہیں۔اتوار کی سہہ پہر لاہور میں شوکت خانم ہسپتال میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پنجاب میں ہماری حکومت اور سابق وزیراعظم ہونے کے باوجود صرف ایک فرد کے نام کی وجہ سے ہماری ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی جس سے عیاں ہے کہ اس ملک میں طاقت ور قانون سے بالا تر ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کٹوانا ان کا بنیادی حق ہے اور سابق وزیراعظم کو اس حق سے محروم رکھا جا رہا ہے تو سوچیں عام عوام کا کیا حال ہو گا؟عمران خان نے کہا کہ میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے جوڈیشل کمیشن بنانے کا خیر مقدم کرتا ہوں لیکن انکوائری تو وہی کریں گے جن کے سربراہ کے خلاف ہماری شکایت ہے اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے ان کو استعفی دینا چاہیے پھر انکوائری شروع کی جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھ پر حملہ ایک پورے پیٹرن کا حصہ ہے جس میں پہلے مجھ پر توہین مذہب کا الزام لگایا جاتا ہے تاکہ مجھے بھی سلمان تاثیر جیسے واقعے میں راستے سے ہٹا دیا جائے۔ان کے بقول: حملے سے پہلے مریم صفدر اور مریم اورنگزیب کی جانب سے پریس کانفرنس کی جاتی ہے جس میں ان پر توہین مذہب کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور پھر واقعے کے فوری بعد سرکاری حکام اور حکومت نواز صحافی فوری طور پر اس واقعے پر ٹویٹس کر کے اسے توہین مذہب سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد ملزم کی ویڈیو ریکارڈ کر کے اسے لیک کیا جاتا ہے۔ بعد میں کہا گیا یہ ویڈیو ہیک ہو گئی تھی۔عمران خان نے کہا کہ وہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ملزم کی ویڈیو کس نے بنائی اور کس نے اسے لیک کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سب کی شفاف انکوائری کی جائے جو ان کا حق ہے۔سابق وزیراعظم نے چیف جسٹس سے سینیئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کیوں کہ ہمیں پتہ تھا کہ ان کو کس سے خطرہ تھا، ان کی والدہ بھی یہ سب جانتی ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ ان کو ملک سے اور پھر دبئی سے نکلنے پر کن طاقتوں نے مجبور کیا۔