سینٹ میں انتخابات کے خلاف قرارداد کی منظوری کے وقت صرف 14، اراکین موجود تھے۔

سینیٹر افنان اللہ  کا شور شرابا..سینیٹر بہرمند تنگی ، کلدیپ سنگھ خاموش اختیار کئے ہوئے تھے

ہم نے بھی مخالفت کی تھی پی پی ،پی ٹی آئی ارکان کی  میڈیا سے بات چیت

چیئرمین سینٹ نے محرک سے  قرارداد کی نوعیت کے بارے میں بھی نہیں پوچھا

اسلام  آباد(صباح نیوز)سینٹ میں انتخابات کے خلاف قرارداد کی منظوری کے وقت صرف 14، اراکین موجود تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر افنان اللہ نے واضح طور پر نو، نو کہا جبکہ  پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرمند تنگی اور پی ٹی آئی کے سینیٹر کلدیپ سنگھ خاموش بیٹھے دکھائی دیئے ۔ قرارداد سے قبل پیپلزپارٹی کے تذکرہ  رہنما  نے انتخابات کے لیے حالات کو ناسازگار قراردیتے ہوئے اظہار خیال بھی کیا تھا  اور مطالبہ کیا  امن و امان کی مخدوش صورتحال کا  جائزہ لینے ضروری ہے ۔ جب کہ سینیٹر شہادت اعوان اور سینیٹر پلوشہ ساری کاروائی مکمل ہونے کے بعد ایوان میں آگئے ۔ اجلاس کے بعد دونوں جماعتوں کے ارکان نے قراردادکی مخالفت کا دعوی کیا ہے  ۔میڈیا کے استفسار پر  بہرمند تنگی اور کلدیپ سنگھ نے دعوی کیا کہ انہوں نے بھی نو نو کہتے ہوئے قرارداد کی مخالفت کی تھی ۔ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ کونسی قرارداد آنے والی ،اچانک یہ قرارداد آ گئی ہم نے بھی مخالفت کی ۔

پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار حکومت کی طرف سے کسی معاملے پر قرارداد کی منظوری کے بعد اس کی مخالفت کی گئی ہے۔قرارداد کی تحریک اور اس کی منظوری کے دوران ایوان بالا میں حکومتی نمائندگی نہیں تھی چیئرمین سینیٹ نے کسی وزیر کے آنے کا انتظار بھی نہیں کیا  بڑی جماعتوں نے کورم کی نشاندہی نہ کرنے کا پچھتاوا کیا ہے اعتراف کیا ہے کہ کورم  کی نشاندہی کی جاسکتی تھی اور کورم پورا کرنا مشکل ہوجا ۔جمعہ کو دو نشستوں میں سینٹ کا اجلاس ہوا۔ نماز جمعہ کے وقفہ کے بعد دو بجے  چیئرمین سینیٹ کی صدارت میں  اجلاس شروع ہوا تو سینیٹر کہدا بابر نے اچانک انتخابی التواء کا موقف پیش کرنا شروع کر دیا۔سینیٹر منظور کاکڑ،سینیٹر ہدایت اللہ خان اور باپ پارٹی کے رہنماؤں کو کئی بات اظہار خیال کا موقع ملا ۔آزاد سینیٹر دلاور خان اس دوران کھڑے ہو گئے اور چیئرمین سینٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں قرارداد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ چیئرمین سینٹ نے ان سے قرارداد کی نوعیت کے بارے میں بھی نہیں پوچھا جس کی وجہ سے اجلاس  میں موجود اراکین اس وقت تک قرارداد کے متن سے لا علم رہے۔کورم نہیں تھا۔افنان اللہ نے شور شرابا کیا اور ان کی باپ پارٹی کے اراکین کے ساتھ تلخ کلامی بھی ہو گئی جب ان کے بارے میں سخت ریمارکس کیے جو حذف کر دیئے گئے کورم کی نشاندہی نہ کر کے سیاسی جماعتوں کا پچھتاوا سامنے آیا۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر افنان اللہ اور سینیٹر بہرمند تنگی نے اعتراف کیا کہ ہمیں کورم کی نشاندہی کرنی چاہیے تھی مگر یہ بات اس وقت ہمارے ذہن میں نہیں آئی ورنہ موقع تو تھا جو ہم سے ضائع ہو گیا۔قرارداد کی منظوری کے بعد نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی ایوان میں پہنچے اور حیران کن طور پر چیئرمین سینٹ نے ان سے رائی لی کہ آپ قرارداد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جبکہ قرارداد تو منظور ہو چکی تھی اور منظور ی کے بعد حکومت نے مخالفت کی۔ پارلیمانی گیلریوں اور پارلیمانی راہداریوں میں بعض مہمانوں کے  یہ تبصرے  بھی سننے کو ملے کہ سینیٹ کے اجلاس نے انتخابات کے معاملے پر بڑے بڑے چہرے بے نقاب کردیئے ہیں ۔ سیاسی قول و فعل کا تضاد بھی سامنے آیا سیاسی جماعتوں کے قائدین باہر کچھ اور پارلیمان میں کچھ اور کہا جارہا ہے

نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضی سولنگی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  ایوان بالا میں الیکشن کے التواکی قرارداد میں دلائل دینے کا موقع نہیں ملا،وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے الیکشن کی تاخیر کے حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں تھا۔مرتضی سولنگی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت الیکشن کرانا، الیکشن کی تاریخ دینا یا تبدیل کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے،ہم کسی آئینی ادارے کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے،قرارداد کے اندر جو مسائل بیان کئے گئے ہیں، وہ حقیقی مسائل ہیں،پاکستان کی پارلیمانی سیاست اور انتخابات کی تاریخ میں یہ مسائل پہلے بھی موجود رہے ہیں، سیکورٹی کی فراہمی سمیت موسم اور دیگر مسائل کا خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے،ابھی تک کسی حلقے کی طرف سے کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا جس میں واضح پیغام ہو کہ انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔مرتضی سولنگی نے واضح کیا کہ الیکشن کے التوایا انعقاد کا آئینی اختیار صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہے