فیصلہ پسند نہیں توہم کچھ نہیں کرسکتے، الیکشن کمیشن کو ہم نے تعینات نہیں کیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ

ہم سرکار اورالیکشن کمیشن نہیں بن سکتے،ہمارا ایک مقصد ہے کہ قانون کے مطابق انتخابات ہوں ، اگر پاکستان کاقانون پسند نہیں تواسے بدل دیں

پی ٹی آئی درخواست پر ہم نے 12دن کے اندر انتخابات کاشیڈول جاری کروایا، آپ پہلے ایسا کیوں نہیں کرواسکے،چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے سارھے11بجے فیصلہ سنایا جس سے پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر گیا، ہم اب کیا توقع کریں کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی، لطیف کھوسہ

 ہمارے امیدواروں کو انتخابات لڑنے دیں، ہم عوام کی عدالت میں جانا پسند کریں گے ، مجھے یہی ہدایات ملی ہیں کہ درخواست واپس لے لی جائے،وکیل

 کیا آپ کو لگتا ہے انتخابات شفاف نہیں ہیں؟ ،جسٹس مسرت ہلالی

 انتخابات بالکل غیرمنصفانہ ہیں، ہم نے عدلیہ کیلئے خون دیا، قربانیاں دیں،لطیف کھوسہ

ہم نے کہا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن ہوا ہیوہ دکھادیں، پاکستان کے قانون میں انٹراپارٹی الیکشن پانچ سال میں کروانے ہوتے ہیں ،چیف جسٹس

پی ٹی آئی کی فیلڈ ہی چھین لی گئی ، الیکشن کمیشن صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے،لطیف کھوسہ

عدالت نے پی ٹی آئی کی جانب سے لیول پلئنگ فیلڈ نہ ملنے پر الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی

اسلام آباد(  ویب  نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم نے پاکستان تحریک انصاف کے وکلاء سے کہا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن ہوا ہے وہ دکھادیں، اگر فیصلہ پسند نہیں توہم کچھ نہیں کرسکتے، ہم سرکار اورالیکشن کمیشن نہیں بن سکتے، ہم نے الیکشن کمیشن تعینات نہیں کیا،نگران حکومت ہم نے نہیں بنائی، ہمارا ایک مقصد ہے کہ قانون کے مطابق انتخابات ہوں، پی ٹی آئی درخواست پر ہم نے 12دن کے اندر انتخابات کاشیڈول جاری کروایا، آپ پہلے ایسا کیوں نہیں کرواسکے۔ اگر پاکستان کاقانون پسند نہیں تواسے بدل دیں، ہم قانون نہیں بناتے، پاکستان کے قانون میں انٹراپارٹی پانچ سال میں کرانے ہیں جبکہ پی ٹی آئی آئین میں یہ مدت تین سال ہے، عوامی نیشنل پارٹی کو جرمانے کے بعد اس لئے انتخابی نشان دے دیا گیا کیونکہ ان کے انٹراپارٹی انتخابات کوابھی 5سال نہیں گزرے تھے۔عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کے معاملے پرسیکرٹری داخلہ آفتاب اکبردرانی اور دیگرے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی ۔سوموار کے روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیسز کی سماعت  کی ۔دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکلا ء سردار محمد لطیف خان کھوسہ اورمحمد شعیب شاہین، پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ کے 22دسمبر2023کے حکم پر پر عمل نہ کرنے پر سیکرٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی اوردیگر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی پیروی کے لئے موجود تھے۔ جب بینچ 11بجے وفقہ کرنے لگا تواس ابھی 7کیسز نمٹائے گئے تھے اور تین کیسز باقی جن میں پی ٹی آئی رہنمابیرسٹرگوہر علی خان کی درخواست آخری نمبر پر تھی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس اورڈی جی لاء الیکشن کمیشن آف پاکستان محمد ارشد بھی کمرہ عدالت میں کیس کی سماعت کے لئے موجود تھے۔  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکلاء سے پوچھا کہ آپ دلائل دینے میں کتنی دیر لگائیں گے۔ اس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ پانچ منٹ لوں گا۔ چیف جسٹس نے مخاطب کرتے ہوئے کہا بتائیں کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب!ہم لیول پلینگ فیلڈ کے لئے آئے تھے ، 13جنوری2024کے فیصلے سے ہماری 230مخصوص نشستیں چھن گئیں۔ سپریم کورٹ نے سارھے11بجے فیصلہ سنایا جس سے پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر گیا، ، ہم اب کیا توقع کریں کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی،فیصلے کے بعد ریٹرننگ افسران نے ہمارے امیدواروں کو کسی کو ڈونگے، کسی کو جگ اورکسی کو گلاس کانشان دے دیا، ہم سے فیلڈ ہی چھین لی گئی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم 25کروڑعوام کی عدالت میں جارہے ہیں، پاکستان کے آئینی اداروں کی خاطر جارہے ہیں، ہمیں الیکشن کمیشن سے کوئی لیول پلیئنگ فیلڈ کی توقع نہیں، ہمارے امیدواروں کو انتخابات لڑنے دیں، ہم عوام کی عدالت میں جانا پسند کریں گے ، مجھے یہی ہدایات ملی ہیں کہ درخواست واپس لے لی جائے۔اس پر چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئین کے آرٹیکل 187کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لیول پلئنگ فیلڈ فراہم کرنے کے حوالے  سے احکامات دے سکتے ہیں، ہم کیس نہیں چلانا چاہتے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا فیصلہ ماننا ہے مانیں، نہیں ماننا تو آپ کی مرضی۔اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ نے تو پی ٹی آئی کی فیلڈ ہی چھین لی، الیکشن کمیشن صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، ایک جماعت کو پارلیمان سے باہرکرکے پابندی لگائی جا رہی ہے، پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد انتخابات لڑیں گے اورکنفیوژن کا شکارہوں گے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے انتخابات شفاف نہیں ہیں؟ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ انتخابات بالکل غیرمنصفانہ ہیں، ہم نے عدلیہ کیلئے خون دیا، قربانیاں دیں۔چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اب آپ ہمیں بھی تحمل سے سن لیں، ایک کیس میں دوسرے کیس کی بات کرنادرست نہیں۔ چیف جسٹس کے بات کرنے دوران لطیف کھوسہ کے بات کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں بولوں گاآپ سنیں گے نہیں،آپ بولیں، آپ نے باتیں کرلیں، آپ مزید باتیں کر لیں جوکرنی ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک پارٹی کو بین کرنا ہے، پارٹی بین ہوئی، سپریم کورٹ پارٹی پر پابندی لگاسکتی ہے ، الیکشن کمیشن آف پاکستان صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو پارلیمان سے باہر کردیا گیا۔جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ اگر کسی جماعت سے اتحاد کرلیں تواس کا نشان استعمال کرسکتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن فیئر ہے، آپ کے جوکام ہیں وہ بھی کریں، آپ بالکل بھی فیئر نہیں ہیں، ایک پارٹی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جب مصیبت پڑتی ہے تو ہم آپ کے لئے جان دینے کو تیارہوتے ہیں۔ لطیف کھوسہ نے بیرسٹر گوہر کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کاذکر کیا ۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابھی تک علی گوہر خان کی طرف سے کوئی شکایات نہیں آئی، اس کیس میں پولیس والوں کو معطل کیا گیا، میں نے آئی جی اسلام آباد کوعلی گوہر کے ساتھ ان کے گھر جانے کا حکم دیا تھا اورکہا تھا کہ اگر کوئی مسئلہ ہوتو دوبارہ بھی بتاسکتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی شکایت ہے توعلی گوہر خان تحریری طور پر دے سکتے ہیں ، کوئی ایشو رہ گیا ہے توہمیں بتادیں۔ چیف جسٹس کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جو ہم نے فیصلہ کیا اس کا ملبہ سپریم کورٹ پر نہ ڈالیں، یہ الگ کیس ہے وہ الگ کیس ہے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس سے جمہوریت تباہ ہوجائے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے کہا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن ہواوہ دکھادیں، اگر فیصلہ پسند نہیں توہم کچھ نہیں کرسکتے، ہم سرکار اورالیکشن کمیشن نہیں بن سکتے، ہم نے الیکشن کمیشن تعینات نہیں کیا،نگران حکومت ہم نے نہیں بنائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا ایک مقصد ہے کہ قانون کے مطابق انتخابات ہوں، پی ٹی آئی درخواست پر ہم نے 12دن کے اندر انتخابات کاشیڈول جاری کروایا، آپ پہلے ایسا کیوں نہیں کرواسکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پاکستان کاقانون پسند نہیں تواسے بدل دیں، ہم قانون نہیں بناتے۔ چیف جسٹس نے کہا  کہ پاکستان کے قانون میں انٹراپارٹی پانچ سال میں کروانے ہیں جبکہ پی ٹی آئی آئین میں یہ مدت تین سال ہے، عوامی نیشنل پارٹی کو جرمانے کے بعد اس لئے انتخابی نشان دے دیا گیا کیونکہ ان کے انٹراپارٹی انتخابات کوابھی سال نہیں گزرے تھے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے جس جماعت سے اتحاد کیا اس کے سربراہ کو اٹھالیا اورپریس کانفرنس کروائی گئی، اتحاد کرنے پربھی اب ہم پرمقدمات بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، آپ کے فیصلے سے ہمیں پارلیمانی سیاست سے نکال دیا گیا، آپ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے لوگ آزاد انتخابات لڑیں گے۔وکیل پی ٹی آئی نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدواران میں سے کسی کو ڈونگا،کسی کو گلاس دے دیا گیا، آپ کے پاس آئین کے آرٹیکل187 کے تحت اختیار ہیں، آپ احکامات دے سکتے ہیں،میں کیس چلانا نہیں چاہتا، ہم عوام کی عدالت میں جاناچاہتے ہیں۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ سینئر وکیل کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ ایساکرے، آپ ہرادارے کوتباہ کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے لیول پلئنگ فیلڈ نہ ملنے پر الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وہ کیس نہیں چلانا چاہتے اس لئے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔ ZS

#/S