- لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے صرف والدین یا بچوں کا ڈی این اے سیمپل بھیجا جائے ، یونانی حکام کی اپیل
- کشتی میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے 130افراد سوار تھے جن میں 43نوجوان بھی شامل ہیں
- یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے بعد 500سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں، اقوام متحدہ انسانی حقوق دفتر
- کشتی میں سیکڑوں بچے بھی تھے، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زندگی کی امید دم توڑ رہی ہے، مرنے والوں میں درجنوں پاکستانی بھی شامل ہیں
- کشتی پر شام، مصر اور کئی دیگر ملکوں کے تارکین وطن بھی سوار تھے، انسانی اسمگلنگ کے الزام میں 9 مصری شہریوں کو گرفتار کرلیا ہے،یونانی سیکیورٹی حکام
- بیرون ملک جانے کے خواب دکھا کر بچوں کو والدین سے جدا کرنے والوں کو کڑی سزا ملنی چاہئے،لاپتہ پاکستانی شہری 25 سالہ شہریار سلطان کے والد کا مطالبہ
ایتھنز/اسلام آباد (ویب نیوز)
یونان کے سمندر میں لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی ڈوبنے کے حادثے میں لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن جاری ہے،298پاکستانیوں سمیت 500 اموات کا خدشہ ہے، اب تک 78افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں جبکہ 104 افراد کو زندگی بچالیا گیا،یونانی حکام نے اپیل کی ہے کہ لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے صرف والدین یا بچوں کا ڈی این اے سیمپل بھیجا جائے ، یونانی سیکیورٹی حکام نے انسانی اسمگلنگ کے الزام میں 9 مصری شہریوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ اموات 500سے زائد ہوسکتی ہیں، مرنیوالوں میں درجنوں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ یورپی حکام اسے بحیرہ روم کی تاریخ کا بدترین حادثہ قرار دے رہے ہیں۔یونانی حکام کے مطابق بحیرہ روم میں ڈوبنے والی کشتی میں 500سے 700افراد سوار تھے، فوجی طیارے، ہیلی کاپٹر اور 6کشتیوں کے ساتھ ریسکیو آپریشن جاری ہے، ریسکیو اہلکاروں نے 104افراد کو سمندر سے زندہ نکال لیا۔رپورٹ کے مطابق اب تک 78افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں، باقی افراد کی تلاش جاری ہے، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زندگی کی امید دم توڑ رہی ہے۔کشتی حادثے میں مرنے والوں میں درجنوں پاکستانی بھی شامل ہیں جبکہ کشتی پر شام، مصر اور کئی دیگر ملکوں کے تارکین وطن بھی سوار تھے۔کشتی میں 310 پاکستانیوں کے بھی سوار ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں سے 298 کی موت کا خدشہ بتایا جارہا ہے تاہم یونان میں پاکستانی سفارت خانے نے تصدیق کی ہے کہ اب تک 12 شہریوں کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ یونانی حکام نے 78لاشیں نکالی ہیں ، تاہم جاں بحق ہونے والوں کی شہریت کا علم نہیں، اس حوالے سے یونانی حکام نے اپیل کی ہے کہ لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے صرف والدین یا بچوں کا ڈی این اے سیمپل بھیجا جائے ، ڈی این اے رپورٹ، لاپتہ افراد کا شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور رابطہ نمبر [email protected] پر بھیجی جاسکتی ہیں ۔ یونان میں پاکستانی سفارت خانہ کے حکام نے کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے 12 پاکستانیوں سے بھی ملاقات کی ہے ۔ یونانی حکام نے جن پاکستانیوں کو بچایا ہے ان میں سے محمد عدنان بشیر اور حسیب الرحمن کا تعلق ضلع کوٹلی سے ہے باقی افراد میں محمد حمزہ(گوجرانوالہ)، عظمت خان(گجرات)، محمد سنی(شیخوپورہ)، زاہد اکبر(شیخوپورہ)، مہتاب علی(منڈی بہاالدین)، رانا حسنین(سیالکوٹ)، عثمان صدیقی (گجرات)، ذیشان سرور(گوجرانوالہ)جبکہ عرفان احمد اور عمران آرائیں ہسپتال میں زِیرعلاج ہیں۔ اس کشتی میں پاکستان بالخصوص آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے 130افراد سوار تھے جن میں 43نوجوان بھی شامل ہیں ۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے بعد 500سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔لاپتہ پاکستانی شہری 25 سالہ شہریار سلطان کے والد کا کہنا ہے کہ بیرون ملک جانے کے خواب دکھا کر بچوں کو والدین سے جدا کرنے والوں کو کڑی سزا ملنی چاہئے۔انہوں نے بتایا اٹلی کیلئے کشتی میں بیٹھنے سے قبل شہریار 2دن دبئی، 6دن مصر اور 4ماہ لیبیا میں رہا۔بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ کشتی میں سیکڑوں بچے بھی تھے، مرنیوالوں کی تعداد 500تک ہوسکتی ہے۔یونانی سیکیورٹی حکام نے انسانی اسمگلنگ کے الزام میں 9 مصری شہریوں کو گرفتار کرلیا ہے۔کوسٹ گارڈ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کشتی حادثہ فیول ختم ہونے یا انجن میں خرابی کے باعث پیش آیا ہو۔