سینیٹ انتخابات ریفرنس: قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے ، بد نیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں، سپریم کورٹ
عدالت نے رضا ربانی کو آج بدھ کو دلائل مکمل کرنے کیلئے آدھے گھنٹے کا وقت دیدیا، فاروق ایچ نائیک کو بھی آج بدھ کو آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت
ریفرنس یکم مارچ تک چلتا رہا تو اس کا فائدہ نہیں ہوگا،اٹارنی جنرل

اسلا م آباد(ویب  نیوز)سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ قانون میں جو بھی درج ہے اس پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہوتا ہے، قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے، (تاہم)قانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے دائر کردہ صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان، صوبائی نمائندے و معاملے میں فریق دیگر افراد پیش ہوئے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اور آئرلینڈ کا آئین ایک جیسا ہے، آئرلینڈ میں بھی الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہوتا ہے، اس نقطہ پر آپ کو سننا چاہیں گے۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ آئرش سپریم کورٹ کا بھی اس معاملے پر فیصلہ موجود ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئرلینڈ کی پارلیمنٹ کے دو ایوان ہیں، آئرلینڈ میں لوئر ہاوس کے انتحابات پاپولر ووٹ سے ہوتے ہیں، آئرلینڈ میں پاپولر ووٹ خفیہ ہوتے ہیں، شہری ووٹرز کا حق کبھی اوپن نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ آئرش سپریم کورٹ کے فیصلے میں شہری ووٹ کی بات کی گئی ہے، پاکستان میں بھی شہری کا ووٹ خفیہ رکھا جاتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اپر ہاوس(ایوان بالا) کا الیکشن ڈائریکٹ نہیں ہوتا۔اس موقع پر عدالت میں موجود پیپلزپارٹی کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ رولز صدارتی انتخابات کے لیے کمشنر کو ہدایات جاری کرنے کا اختیار دیتے ہیں، شیڈول 2 کے باوجود صدارتی انتخابات کے لیے رولز بنائیں گے، یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات بھی آئین کے تحت ہوتے ہیں۔ان کی بات پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ رولز آئین کے تحت بنے ہیں، رولز صدارتی الیکشن کا اختیار دیتے ہیں، الیکشن ایکٹ کے لیے بنے رولز کی حیثیت آئینی نہیں ہے۔سماعت کے دوران رضا ربانی نے کہا کہ سینیٹ کبھی تحلیل نہیں ہوتی بلکہ ارکان ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں جو بھی درج ہے اس پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہوتا ہے، قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے، (تاہم)قانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں۔اس دوران بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سینیٹ الیکشن کا مکمل طریقہ کار آئین میں نہیں قانون میں ہے۔عدالت عظمی میں سماعت کے دوران متناسب نمائندگی پر دلائل دیتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا مطلب یہ نہیں کہ اسمبلی کی اکثریت سینیٹ میں بھی ملے، متناسب نمائندگی نظام کے تحت نشستوں کی تعداد میں کمی بیشی ہو سکتی ہے، جہاں ووٹوں کی خریدو فروخت ہوگی قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ شواہد کے بغیر نشستوں کی تعداد میں فرق کو ووٹ فروخت کرنا نہیں کہہ سکتے، بیلٹ پیپرز کی سیکریسی (رازداری)متاثر نہ ہو تو الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسا طریقہ بھی بتا دیں کہ ووٹ دیکھا بھی جائے اور سیکریریسی متاثر نہ ہو، جس پر رضا ربانی نے کہا کہ رشوت لینا یا لینے پر آمادگی ظاہر کرنا ووٹ دینے کے پہلے کے مراحل ہیں، ووٹ کے لیے پیسے لینے والا ووٹنگ سے پہلے کرپشن کر چکا ہوتا ہے، کرپشن ووٹنگ سے پہلے ہوتی ہے تو اس کے لیے ووٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ان کی بات پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر معاہدہ ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھر کیا ہوگا، ووٹ ڈالنا ثابت ہوگا تو ہی معلوم ہوگا رقم الیکشن کے لیے دی گئی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن اتحاد کی گنجائش سیاسی جماعتوں میں  ہمیشہ رہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام کا حق ہے کہ سینیٹ الیکشن شفاف اور کرپشن سے پاک ہوں، کسی کو سینیٹ الیکشن میں شفافیت پر اعتراض نہیں، اختلاف رائے صرف سینیٹ الیکشن کو شفاف بنانے کے طریقہ کار پر ہے۔دوران سماعت رضا ربانی نے کہا کہ کوئی پیسے لیتا پکڑا گیا تو کوئی شواہد بھی ہوں گے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جہاں ویڈیو آچکی ہے وہاں کوئی کارروائی ہوگی؟ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ کونے میں کھڑے ہو کر بات کریں تو گواہ کہاں سے آئے گا؟ ایسا کوئی نظام نہیں کہ معلوم ہو سکے کس کو کس نے ووٹ دیا؟ جس پر رضا ربانی نے کہا کہ آئین ووٹ ڈالنے والے کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رشوت ووٹ سے جڑی ہے تو اس کا جائزہ کیسے نہیں لیا جاسکتا۔جس پر رضا ربانی نے کہا کہ رشوت کسی کو ووٹ نہ ڈالنے کے لیے بھی دی جاسکتی ہے، جو پیسے ہی اس بات کے لے کہ ووٹ نہیں ڈالوں گا تو کیسے پکڑیں گے؟ صرف ووٹ ڈالنا نہیں رقم لینا بھی جرم ہے۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ ہی نہ ڈالا جائے تو شناخت کی ضرورت نہیں، کوئی ووٹ نہ ڈالے تو پیسہ لینا ثابت کرنا ہوگا۔اس پر رضا ربانی نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کے اطلاق کا ہے۔میں بدھ کواپنے دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔اسی دوران عدالت میں موجود فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کی وکالت کروں گا۔بعد ازاں حکومت کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار کونسلز کا سیاسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں، بار کونسلز کے دلائل سننے کی بھرپور مخالفت کرتا ہوں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ریفرنس میں کسی دوسرے کے دلائل سننا لازمی نہیں، عدالت آج بدھ کو میرا جواب الجواب سن کر اپنی رائے دے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ریفرنس یکم مارچ تک چلتا رہا تو اس کا فائدہ نہیں ہوگا۔تاہم عدالت نے اٹارنی جنرل کی جانب سے بار کونسلز کے دلائل نہ سننے کی استدعا مسترد کردی۔مزید یہ کہ عدالت نے رضا ربانی کو آج بدھ کو دلائل مکمل کرنے کیلئے آدھے گھنٹے کا وقت دیدیا، ساتھ ہی پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو بھی آج بدھ کو آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔اس کے علاوہ عدالت نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے بیرسٹر ظفر اللہ کو بھی آدھا گھنٹے کا وقت ملے گا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جے یو آئی (ف)اور جماعت اسلامی نے رضا ربانی کے دلائل اپنا لیے ہیں لہذا دونوں مذہبی سیاسی جماعتوں کے وکیل الگ دلائل نہیں دیں گے۔علاوہ ازیں عدالت نے کہا کہ تمام وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر جواب الجواب دیں گے، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ریفرنس پر کارروائی مکمل کرنی ہے۔جس کے بعد کیس کی مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی گئی۔یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔