جموں وکشمیر میں پابند یاں ہیں ، بڑی تعداد میں شہری حراست میں ہیں،ہیومن رائٹس واچ
عدالتوں نے جموں وکشمیر میں حبس بے جا کی554 درخواستوں پر ایک سال تک سماعت نہیں کی
نیویارک(ویب نیوز ) انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے عالمی رپورٹ 2021 میں نشاندھی کی ہے کہ بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میں 5 اگست 2019 میں کے بعد پابندیاں عائد ہیں ، بڑی تعداد میں شہری حراست میں ہیں۔ زیادہ تر کو جموں وکشمیر سے باہر کی جیلوں میں رکھا گیا ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ روز عالمی رپورٹ 2021 جاری کی ۔ رپورٹ میں بھارت ، چین، امریکا ، ایران سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کو ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ ، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5 اگست 2019 میں ، جب ہندوستانی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا جموں وکشمیر میں سخت پابندیاں عائد کی گئیں، منتخب عہدیداروں ، سیاسی رہنماں ، کارکنوں ، صحافیوں سمیت ہزاروں افراد کو من مانی طور پر حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر کو ان کے اہل خانہ کو ان کے ٹھکانے کے بارے میں بتائے بغیر حراست میں رکھا گیا متعدد کو تو علاقے سے باہر کی جیلوں میں بھی منتقل کردیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینکڑوں حبس بے جا کی درخواستیں اہل خانہ کی جانب سے عدالتوں میں دائر کی گئیں جن میں غیر قانونی نظربندی کو چیلنج کیا گیا ۔ زیر حراست افراد کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق عدالتوں نے اکثر درخواستوں کی سماعت ایک سال سے زیادہ موخر کردی۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں 5 اگست ، 2019 کے بعد داخل کی جانے والی 554 حبس بے جا کی درخواستوں میں سے ، عدالت نے 29 ستمبر 2020 تک صرف 29 مقدمات میں فیصلہ سنایا تھا۔ 30 فیصد سے زیادہ مقدمات سنے ہی نہیں گے حتی کہ زیر حراست افراد کو رہا کر دیا گیا۔ 65 فیصد مقدمات ایک سال بعد زیر التوا رہے ، ۔ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریتی علاقوں پر سخت اور امتیازی پابندیاں لگائی گئیں ہیں۔متعدد افراد کو بغیر کسی الزام کے حراست میں لیا گیا۔ غیر قانونی سرگرمیاں کی روک تھام ایکٹ کے تحت لوگوں کو ہراساں کیا گیا۔ حکومت اس قانون کے تحت صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر دبا ڈال رہی ہے۔