پاکستان جبری گمشدگیوں پر ہنگامی بنیادوں پر تحقیقات کرائے: اقوام متحدہ کا مطالبہ
جبری گمشدگیوں کو فوری طور پر قانون کے تحت ایک جرم قرار دیا جائے
یو این کے انسانی حقوق اور تشدد کے خلاف کام کرنے والے آٹھ اداروں کاچودہ صفحات پر مشتمل حکومت پاکستان کو خط

جنیوا،لندن(ویب  نیوز)اقوام متحدہ نے جبری گمشدگیوں کے معاملے میں پاکستان کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں، اور خاص طور پر سندھ میں ہونے والی جبری گمشدگیوں کو سنجیدگی سے لے اور ان پر غیرجانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے ملوث افراد کو قانون کے دائرے میں لائے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جبری گمشدگیوں پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ آن انفورسڈ آر انوالنٹری ڈس اپیرنسز سمیت یو این کے انسانی حقوق اور تشدد کے خلاف کام کرنے والے آٹھ اداروں نے اس حوالے سے حکومت پاکستان کو خط لکھا ہے۔حکومت پاکستان کو لکھے گئے چودہ صفحات پر مشتمل ایک خط میں کہا گیا ہے کہ انہیں جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان سے لگتا ہے ملک میں اقلیتی گروہوں، خاص طور پر سندھ میں لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے واقعات میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ ان اقدامات میں ملوث افراد کے خلاف تفتیش نہ کرائے جانے سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یا تو یہ حکومتی پالیسی ہے یا پھر ان جرائم کو نظرانداز کرنا پالیسی کا حصہ ہے۔اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے پاکستان کی حکومت کو اپنی تشویش اور الزامات پر موقف دینے، ان پر کیے گئے اقدامات، ان کے نتیجے میں لوگوں کی رہائی اور جبری گمشدگیوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت دیا تھا۔لیکن ورکنگ گروپ کو دو ماہ میں پاکستان نے کوئی جواب نہیں دیا جس کے بعد انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے اس خط کو عام کیا ہے۔اس خط کے سامنے آنے کے بعد پاکستانی حکومت کا ردعمل جاننے کے لیے برطانوی نشریاتی ادارے نے پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق، شیریں مزاری اور پاکستان کے وزیر برائے اطلاعات اور نشریات فواد چوہدری سے رابطہ کیا لیکن فی الحال کسی نے بھی ردعمل نہیں دیا ہے۔تاہم ماضی میں پاکستان کی حکومت اور وزرا ملک میں حکومتی اداروں کے جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور وزارت داخلہ کے اہلکار بھی عدالتوں میں اس بات سے انکار کرتے رہے ہیں کہ ان کے اہلکار جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں۔اقوام متحدہ کے خط کے مطابق حکومت پاکستان سے جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کے سلسلے میں پہلے بھی رابطے کیے گیے ہیں، اور ہم پاکستان کی جانب سے ان معاملات پر ہماری تشویش پر دیے گیے جوابات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن پھر بھی زور دینا چاہتے ہیں کہ ہر شخص کو جبری گمشدگیوں سے بچا کا عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق حاصل ہے جسے ریاست کو یقینی بنانا ہے۔اقوام متحدہ کے گروپس کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے اداروں کو ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں خاص طور پر سندھ میں ان واقعات میں تواتر سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ عمل خاصا پھیلا ہوا ہے اور گذشتہ کئی دہائیوں سے اس کا ہدف ایسے کئی افراد بنے ہیں جو سندھی، بلوچ، پشتون اور شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے کے علاوہ سیاسی کارکن تھے یا انسانی حقوق کے علمبردار تھے۔ ان افراد کے بارے میں خیال تھا کہ وہ مذہبی یا قوم پرستانہ گروہوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔خط کے مطابق ان جبری گمشدگیوں کا الزام ملٹری انٹیلیجنس، آئی ایس آئی، سندھ رینجرز، سندھ پولیس اور انٹیلی جنس بیورو پر لگایا جا رہا ہے اور ان اقدامات کا بظاہر مقصد پاکستان کی اقلیتوں میں خوف پیدا کر کے ان کو خاموش کرانا لگتا ہے۔لگتا ایسے ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث یہ افراد مرکزی حکومت سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں، لیکن مرکزی حکومت، اور عدلیہ بظاہر ان کو ارادتا یا غیر ارادی طور پر روکنے اور ملوث افراد کو قانون کے دائرے میں لانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ متعدد بار لوگوں کو دن دہاڑے ایسے لوگوں نے جبری طور پر لاپتہ کیا ہے جنہوں نے سکیورٹی اہلکاروں یا پولیس کی یونیفارم پہن رکھی ہوتی ہیں اور پولیس کی گاڑیوں میں آتے ہیں۔اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ لاپتہ کیے جانے والے لوگوں کے خاندان والوں کو اطلاعات تک نہیں پہنچائی جاتیں اور ان تک رسائی بھی روک دی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں لاپتہ کیے گئے افراد کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔ واپس آنے والے کئی لوگوں پر جسمانی اور دیگر طرح کے تشدد کے نشانات ہوتے ہیں اور ان پر الزامات اور مقدمات تک کی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔خط کے مطابق گذشتہ پانچ برس میں سندھ میں تین ہزار آٹھ سو لوگ جبری طور پر لاپتہ کیے جانے کے اطلاعات ہیں، جبکہ ان گمشدیوں میں ملوث ایک شخص کی بھی نشاندہی ہوئی نہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا۔اقوام متحدہ کے مطابق ملک کے ذرائع ابلاغ کے ادارے بھی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے ان گمشدگیوں کے بارے میں پتا لگانے سے گھبراتے ہیں۔ اسی طرح، جب کچھ لوگ لمبے عرصے تک غائب رہنے کے بعد، رہائی پاتے ہیں تو اپنی گمشدگیوں کے بارے میں مزید کارروائیوں کے خوف کی وجہ سے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ کچھ لاپتہ افراد کی لاشیں ملتی ہیں لیکن ان ہلاکتوں پر بھی کوئی تفتیش نہیں ہوتی۔گو عدلیہ ان گمشدگیوں کی مذمت کرتی ہے لیکن ملک کے موجودہ قوانین میں خامیوں کی وجہ سے وہ ان واقعات کو روک نہیں پاتی۔خط کے مطابق فوج انسانی حقوق کے کارکنوں پر ملک دشمنی کے الزامات عائد کرتی ہے اور جبری گمشدگیوں کا یہ جواز دیتی ہے کہ سندھ میں جنگ جاری ہے۔اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے مطابق 2010 میں جبری گمشدگیوں کے بارے میں قائم کیا جانے والا کمیشن درست سمت میں ایک قدم تھا لیکن اس کے موثر ہونے کے بارے میں بہت سے سوالات ہیں، کیونکہ وہ لاپتہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے بارے میں تحقیقات نہیں کر سکا۔یہ کمیشن 2016 تک 982 لوگوں کے بارے میں پتا لگا پایا، تاہم دیگر 1273 افراد کے بارے میں پتا لگانے میں ناکام رہا۔2019 تک کمیشن ایسے 2178 واقعات کے بارے میں معلوم کرنے سے قاصر رہا۔ تاہم انسانی حقوق کے مقامی گروپ جبری طور پر گمشدہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔اقوام متحدہ نے الزام لگایا ہے کہ حکومت کی جانب سے ان واقعات پر ٹھوس اور موثر کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے جبری گمشدگیوں کے بارے میں عمومی لاقانونیت کا ماحول پیدا ہوا ہے۔گو حکومت خود بھی گمشدہ افراد کی لاشیں ملنے پر ان کو ورثا کے حوالے کرتی ہے لیکن ان پر فوجداری قوانین کے تحت تفتیش نہیں کراتی  ۔خط میں پاکستان کی حکومت کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر یہ الزامات درست ہیں تو پاکستان ان بین الاقوامی قوانین کے معاہدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا جن پر اس نے دستخط کیے ہیں۔یو این کے گروپ نے زور دیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کو فوری طور پر قانون کے تحت ایک جرم قرار دیا جائے۔خط کے مطابق پاکستان کے انسداد دہشتگردی ایکٹ اور پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس میں اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ لگتا ہے کہ یہ قوانین جزوی طور پر بلاجواز گرفتاریوں، گمشدگیوں اور تشدد کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔اس لیے ہم گزارش کرتے ہیں کہ پاکستان ہنگامی بنیادوں پر اپنے بین الاقوامی وعدوں کی روشنی میں اپنے قوانین اور اقدامات کا جائزہ لے۔