پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری کیلئے  جون کے تیسرے ہفتے  میںا ظہار دلچسپی  کی درخواستیں طلب کی جائیں گی۔ چار بڑے کنسورشیم کی اظہار دلچسپی

اسٹیل ملز کو دوبارہ چلانے کیلئے 50 کروڑ ڈالر درکار ہیں اسٹیل مل کی اراضی 19 ہزار ایکڑ ہے،ایڈیشنل سیکرٹری وزارت صنعت و پیداوار

قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی صنعت وپیداوار کوپاکستان سٹیل ملز کی نجکاری  پر بریفنگ

اسلام آباد  (ویب ڈیسک)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی صنعت وپیداوار نے  پاکستان اسٹیل مل  کے اثاثوں  کی قیمت  ملازمین کے واجبات  دیگر مراعات کی ادائیگی  اور نجکاری کے  ممکنہ شیڈول  کی تفصیلات طلب کرلیں۔ کمیٹی نے  گاڑیاں بنانے والی نجی کمپنیوں کے معاملات میں بے قاعدگیوں کی مسابقتی کمیشن کو تحقیقات کی ہدایت کردی ہے اجلاس کے دوران حکام نے بتایا کہ ہنڈا کمپنی کی ماہانہ پیداوار 120 گاڑیاں تھیں جبکہ بکنگ500کی  کی جاتی رہی۔نیا قانون بنایا جارہا ہے بروقت گاڑیاں نہ دینے والوں کو تین فیصد اضافے رقم کے ساتھ صارفین کو ادائیگی کرنی پڑے گی۔پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری کیلئے  جون کے تیسرے ہفتے  میںا ظہار دلچسپی  کی درخواستیں طلب کی جائیں گی۔ چار بڑے کنسورشیم نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ کمیٹی کا اجلاس چیرمین ساجد حسین طوری کی صدارت  میں پارلیمینٹ ہاؤس میں ہوا۔  حکام نجکاری کمیشن نے  پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری  پر بریفنگ  دیتے ہوئے بتایا کہ سٹیل ملز پلانٹ کی ویلیو کا تخمینہ 60 سے 80 ارب روپے لگایا گیا ہے، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت صنعت و پیداوار حامد عتیق سرور نے کہا کہ اسٹیل ملز کو دوبارہ چلانے کیلئے 50 کروڑ ڈالر درکار ہیں اسٹیل مل کی اراضی 19 ہزار ایکڑ ہے۔ڈاکٹر افتخار نقوی ڈی جی نجکاری کمیشن ٹرانزیکشن کمیٹی نے بتایا کہ ملز کی 1228   ایکڑ اراضی نئے سرمایہ کار کو دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ ڈی جی نجکاری کمیشن کے مطابق سٹیل کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے نئی کمپنی بنا رہے ہیں۔جون کے آخری ہفتے تک انوسٹرز کیلئے اظہار دلچسپی کا اشتہار جاری کریں گے۔2015سے اسٹیل مل بند پڑی ہے، 2018 میں نجکاری لسٹ سے نکالا گیا۔ ارکان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ سٹیل مل کی  19 ہزار ایکڑ  زمین ہے۔ 1228 ایکڑ لینڈ نئے انوسٹرکو دینے کی سفارش کی گئی ہے ۔  اس وقت تک چار کنسورشیم  دو چینی، ایک روسی اور ایک کورین  نے دلچسپی ظاہر کی ہے ۔سٹیل مل کی ایک نئی بیلنس شیٹ تیار ہونے جا رہی ہے اس پرکسی قسم کا کوئی چارج نہیں ہوگا۔پاکستان سٹیل مل کے ہر پلانٹ اور مشینری کی ایویلیو ایشن ہوئی ہے ۔سٹیل مل پلانٹ کی 60 سے 80 ارب  روپے  کی  ویلیو ایشن ہوئی ہے۔  ۔ رکن کمیٹی اسامہ قادری نے کہا کہ  سٹیل مل سندھ کا ایک بہت بڑا سیاسی مسئلہ بنے گا پہلے ملازمین کا ایشو حل کیا جائے۔ سٹیل مل ملازمین کی تنخواہیں سالہا سال سے رکی ر ہیں ملز کے ملازمین کے دونمائندوں کو اجلاس میں مدعو کر کے ان کا موقف بھی سنا جائے ۔ حکام نے یہ بھی بتایا کہ  مل میںچوری کے واقعات میں بنیادی وجہ سیکورٹی کے کم انتظامات ہیں۔ کمیٹی  نے اس معاملے پر حکام کو چیف سیکرٹری سندھ سے رابطے کی ہدایت کی ہے۔ ریاض الحق اور دیگر ارکان نے کہاکہ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر جب اپوزیشن میں تھے تو روزانہ  اسٹیل مل کی نجکاری کیخلاف احتجاج کرتے تھے کراچی میں مظاہرے ہوئے  اب یہ مظاہرے کیوں نہیںہوتے اب تو نجکاری کا واضح اعلان کیا جارہا ہے۔ عالیہ حمزہ نے کہاکہ کیونکہ  اب ملازمین کو بروقت تنخواہیں مل رہی ہیں اس لئے  مظاہرے نہیں ہورہے۔ اجلاس کی کاروائی کے دوران گاڑیوں کی تیاری  ڈلیوری کے معاملات پر بریفنگ دی گئی۔ بعض ارکان نے کہاکہ جن کمپنیوں کو گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ان کے فرنچائز نے  پیشگی اپنے لوگوں کے شناختی کارڈ کے نام پر بکنگ کروالی اور عام صارف طویل عرصے تک گاڑیاں حاصل کرنے سے محروم رہے۔ حکام نے بتایا کہ نئی پالیسی بن گئی ہے۔حکام کے مطابق  اون منی کے معاملے پر  اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ 60 دن میں گاڑی فراہم نہ کرنے والی کمپنی کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا صارف کو تین  فیصد زائد  رقم  کا چیک دینا ہوگا  متعلقہ کمپنی کائی بور پلس تین فیصد رقم متاثرہ صارفین کو ادا کرنے کی پابند ہوگی اس کا مقصد اون منی کی روک تھام ہے۔ کوئی بھی ڈیلر گاڑی کی بکنگ نہیں کر سکتا، بکنگ کمپنی کے زریعے ہوتی ہے۔ جرمانے کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا۔اجلاس میں اعتراف کیا گیا کہ ایم جی گاڑیوں پر بھی اون منی چل رہی ہے، کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ ایم جی کمپنی صارفین کو گاڑیاں بروقت فراہم کرنے میں ناکام رہی ۔ایم جی کمپنی نے غلط مارکیٹنگ کی، لوگوں کو بہت شکایات ہیں۔ اگلے اجلاس میں ایم جی سمیت متعلقہ کمپنیوں ایف بی آر مسابقی کمیشن وزرات تجارت  کے نمائندوں کو طلب کر لیا گیا ہے ۔ اجلاس  میں  بعض ارکان نے گاڑیوں کی درآمد پر انڈر انوائسنگ کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ  گئی کہ درآمدی گاڑی کی ویلیو 11 ہزار 682 ڈالر ظاہر کی گئی۔ بعد میں اس کی ویلیو 13700 ڈالر لگائی گئی ، رکن کمیٹی ریاض الحق نے کہا کہ  ایم جی گاڑیوں میں انڈر انوائسنگ ہوئی، کمرشل امپورٹ میں گرین فیلڈ سٹیٹس تو نہیں تھا، اسکی انوسٹی گیشن ہونی چاہیے۔حکام  نے کہا کہ  ایک کمپنی نے گرین فیلڈ کا لائنس  لیا دوسری ایک الگ کمپنی امپورٹ کر رہی ہے۔ ، وزارت صنعت و پیداوار کے حکام کا موقف تھا کہ  انڈر انوائسنگ ہوئی یا نہیں یہ کسٹمز حکام کا معاملہ ہے،اس معاملے پر ایف بی آر سے بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ برقی و ہائبرڈ گاڑیوں سے متعلق بتایا گیا کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی بن گئی ہے جس پر کسی قسم کے ٹیکس نہیں ہیں موٹرسائیکل اور رکشہ کے حوالے سے  لائسنس لئے گئے ہیں ، گاڑیوں کیلئے تاحال کسی نے لائسنس نہیں لیا۔ برقی گاڑیوں کیلئے  چارجنگ اسٹیشن بنیں گے ۔ کمیٹی نے  چارجنگ اسٹیشن کے حوالے سے فوری طورپر مقامات کی نشاندہی کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے مالز کو برقی گاڑیوں کے چارجنگ اسٹیشن قائم  کرنے کا پابند بنایا جائے۔