اسلام آباد (ویب ڈیسک)
سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین پیمرا اورآئی جی اسلام آباد سے الگ الگ تفصیلی رپورٹس طلب کرلی ہیں، عدالت نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا پیمراقانو ن کی شق 27کے تحت جو ایکشن لیتا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 19سے موافقت رکھتا ہے یا نہیں ؟ ۔ جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس منیب اختراور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تواٹارنی جنرل ، وفاقی و صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز، ڈی جی ایف آئی اے ثنااللہ عباسی، چیئرمین پیمرا، انسپکٹرجنرل اسلام آباد پولیس سمیت دیگر فریقین عدالت میں پیش ہوئے ۔ کیس کی سماعت کا آغا زہواتوجسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس معاملے سے متعلق کیس میں پیش رفت کے حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کرائی ہے اور رجسٹرارسپریم کورٹ نے میڈیاسے متعلق معاملات کے مقدمات کی فہرست بھی جمع کرائی ہے ۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے پاکستان الیکٹرونک کرائم ایکٹ (پیکاایکٹ)کے قانون پرعمل کیلئے کوئی ضابطہ کار بنائے ہیں یا نہیں ؟ ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ چار سال میں صحافیوں کیخلاف 27 شکایات ملیں،27 میں سے صرف چار شکایات انکوائری میں تبدیل ہوئیں اور مقدمات درج ہوئے۔جسٹس اعجازا لاحسن کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کو آئین کے آرٹیکل 19کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کرنا چاہیئے کہ پیکا ایکٹ کی شقوں پر کس طرح عمل درآمد کرنا ہے کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے جس کو فالو کرنا ہوگا پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ کیس بنتا بھی ہے یا نہیں لیکن ایف آئی اے ایکشن پہلے لیتا ہے اور کیس بعد میں بنتا ہے ۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ پیکا قانون آزادی اظہار رائے کو نہیں روکتا ڈی جی ایف آئی اے اٹارنی جنرل کے ساتھ بیٹھ کر کوئی قابل عمل طریقہ کار بنائیں کیونکہ کوئی چیز واضح نظر نہیں آرہی۔ عدالت آئین سے ماورا کام کی اجازت نہیں دے گی آئین کا آرٹیکل19اظہار آزادی کاحق دیتاہے لیکن اس کے ساتھ مناسب پابندیاں بھی ہیں اس لئے آپ کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھاکہ ایسا لائحہ عمل بنائیں گے کہ جس پرحکومت اورتمام ادارے عمل کریں گے۔ جائزہ لیں گے کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی آرٹیکل 19 سے متصادم تونہیں۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے سے کہا کہ وہ گذشتہ ایک سال کی رپورٹ دیں جس میں بتایا جائے کہ ایف آئی اے کو کتنی شکایات ملیں ، کتنی ایف آئی آرز درج ہوئیں اور عدالتوں میں بھیجے گئے مقدمات کی کیا صورتحال ہے ؟ اس دوران اٹارنی جنرل خالدجاوید خان نے بتایا کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ کیلئے پروٹیکشن آف جرنلسٹس ایکٹ لارہی ہے جو پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے لیکن میڈیا میں ایک اور پیش رفت سوشل میڈیا ہے ۔اس موقع پر جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیئے کہ آزادی صحافت کوریگولیٹ آئین کا آرٹیکل 19 کرتا ہے پیکا نہیں، میں یوٹیوب چینل بنا کر کردار کشی شروع کر دوں تو کیا یہ صحافت ہوگی؟ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی تو ذمہ دار ڈی جی ایف آئی اے ہوں گے۔جسٹس اعجازالاحسن نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اس معاملے میں بہت ریسرچ کی ضرورت ہے آپ اپنی تجاویز دیں عدالت اس معاملے میں تمام پہلوؤںسے درست سمت کا تعین کرے گی۔ عدالت نے چیئرمین پیمراکو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ پیمرا قانون کی شق 27کی بنیادپر ایکشن لیتا ہے لیکن کیا یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ ایکشن آئین کے آرٹیکل 19-Aکی خلاف ورزی تو نہیں ہیں ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ پیمرا کو اپنے پیرامیٹرز طے کرنا ہونگے کہ کیا ایکشن لینا ہے، کیسے ایکشن لینا ہے اور کیوں ایکشن لینا ہے یہ کسی فرد واحد کی صوابدیدنہیں ہونی چاہیئے۔ فریڈم آف سپیچ اور فریڈم آف پریس کی وضاحت کرنی چاہیئے کہ کس حد تک میڈیا کو ریگولیٹ کیا جانا چاہیئے ۔ جسٹس قاضی محمد امین کا کہناتھا کہ کیا اظہار رائے کی آزادی ان گائیڈڈ ہونی چاہیے لیکن اس حوالے سے قوانین موجود نہیں ہیں ۔ جسٹس اعجازا لاحسن کا کہنا تھا کہ ہر حال میں پریس کا تحفظ ہونا چاہیئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے شہریوں کو بھی تحفظ ضروری ہے تاکہ آزادی ان گائیڈڈنہ ہو، ہمیں توازن قائم کرنا ہوگا۔ عدالت نے چیئرمین پیمرا کو ہدایت کی وہ آئند سماعت تک رپورٹ دیں کہ ایک سال میں اس نے کہا ایکشن لئے اور کون سے ایکشن عدالت میں ثابت نہیں ہوسکے اور یہ بھی بتایا جائے کہ پیمرا قانون پر عمل کیلئے کوئی ایس او پیز بنائے گئے ہیں یا نہیں۔ عدالت نے چیئر مین پیمراکے سامنے سوال اٹھایا ہے کہ کیا پیمراقانو ن کی شق 27کے تحت جو ایکشن لیتا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 19سے موافقت رکھتا ہے یا نہیں ؟ پیمرااس پر بھی اپنا موقف دے ۔ دوران سماعت عدالت نے واضح کیا کہ اس از خود نوٹس کیس میں انفرادی مقدمات نہیں سنے جائیں گے ۔ اس موقع پر عدالت ہدایت پر آئی جی اسلام آباد پولیس پیش ہوئے تو جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ کیا صحافی کو گولی مارنے والے ملزم پکڑے گئے؟ صحافت کی آڑ میں کسی کے ذاتی فعل کوتحفظ نہیں دیں گے، کسی کو صحافیوں سے مسئلہ ہے تو قانونی راستہ اپنائے، صحافیوں کو گولیاں مارنا یا تشدد کرنا لاقانونیت ہے، آئی جی اسلام آباد یقینی بنائیں کہ صحافیوں پرحملے کرنے والے گرفتارہوں، فاضل جج کے استفسارپرآئی جی اسلام آباد نے کہا کہ نادرا کو ویڈیوز بھجوائیں لیکن ملزمان کی شناخت نہیں ہوسکی۔ جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ ملزمان کا گرفتار نہ ہونا آپ کی ناکامی ہے، مینار پاکستان واقعے کے ملزم پکڑے جا سکتے تو صحافیوں کے کیوں نہیں۔جسٹس قاضی محمد امین نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ ضابطہ فوجداری قانون کی شق 324کے کتنے مقدمات ہیں جن میں ملزمان گرفتار نہیں ہوئے ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے آئی جی کو ہدایت کی کہ آئند صماعت پر تفصیلی رپورٹ دیں کہ ایک سال میں صحافیوں پر اسلام آبادمیں کتنے صحافیوں پر حملے ہوئے اور ہراسگی کے کتنے مقدمات آئے ان مقدمات میں کیا پیش رفت ہے ْ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر اسلام آباد میں صحافی خو دکو غیر محفوظ سمجھتے ہیں تو باقی لوگوں کی کیا حالت ہوگی ملک کے ہرشہری کی حفاظت ہونی چاہیئے اور عوام کو باخبر رکھنے والے صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس دوران پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی جانب سے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ وہ اپنا موقف تحریری طور پر عدالت میں دیں گے ، عدالت نے صدر پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ امجد بھٹی کو ہدایت کی کہ وہ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس جاکر ان کو اپنے تمام مسائل سے آگاہ کریں ۔ اس دوران پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے وکیل نے فریق بننے کی درخواست کی تو عدالت کا کہناتھا کہ اگر ضرورت پڑی توان کی درخواست کابھی جائزہ لیا جائے گا تاہم عدالت نے واضح کردیا کہ انفرادی معاملات کو اس کیس کے ساتھ نہیں دیکھا جائے گا صرف بنیادی معاملے پر فوکس کیا جائے گا اور مجموعی طور پر میڈیاکی آزادی کے حوالے سے پیرامیٹرزسیٹ کردیئے جائیں گے ۔ عدالت نے قراردیا کہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا پیمرا قانون کی شق 27آئین کے آرٹیکل 19سے موافق ہے یا نہیں ؟ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اگر اور بھی کوئی قانونی سوالات ہوں تو عدالت کے سامنے رکھے جائیں ۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے، چئیرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔