او آئی سی مسلم دنیا کو درپیش مختلف چیلنجز کے حل میں موثر تنظیم کے طور پر کردار ادا کرے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے سیکرٹری جنرل او آئی سی حسین ابراہیم طہٰ کی ملاقات

اسلام آباد۔ (ویب نیوز  )

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ او آئی سی مسلم دنیا کو درپیش مختلف چیلنجز بالخصوص اسلامو فوبیا، امن و سلامتی اور تنازعات کے حل کے سلسلے میں موثر تنظیم کے طور پر اپنا کردار ادا کرے،افغانستان میں معاشی تباہی کے اثرات پڑوسی ممالک، خطے اور دیگر دنیا پر مرتب ہوں گے،بین الاقوامی برادری، مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کی جوابدہی اور مواخذے کیلئے اقدام اٹھائے۔

یہ باتیں انہوں نے سیکرٹری جنرل او آئی سی حسین ابراہیم طہٰ سے کہیں جنہوں نے وفد کے ہمراہ ان سے وزارت خارجہ میں ملاقات کی۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ نے سیکرٹری جنرل او آئی سی کا منصب سنبھالنے پر حسین ابراہیم طہٰ کو مبارکباد دی اور کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ او آئی سی آپ کی رہنمائی میں بین الاقوامی سطح پر مزید فعال ہو گی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی کے بانی رکن کے طور پر، پاکستان تنظیم کی اقدار اور مقاصد کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان او آئی سی کو امت کی واحد اور موثر آواز کے طور پر فروغ دینے کے لیے بھی پرعزم ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان 22-23 مارچ 2022 کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 48ویں اجلاس کی میزبانی کا منتظر ہے۔

یکے بعد دیگرے دو وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاسوں کی میزبانی مسلم امہ کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کی سنجیدگی کا ثبوت ہے۔پاکستان او آئی سی کےمختلف رکن ممالک کے ساتھ باہمی طور پر سائنسی و اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس سلسلے میں، آئی سی ٹی، طب، تعلیم، بھاری صنعتی اور زرعی مشینری کا تبادلہ پاکستان کی خصوصی دلچسپی کے شعبے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ او آئی سی، مسلم دنیا کو درپیش مختلف چیلنجز بالخصوص اسلام فوبیا، امن و سلامتی اور تنازعات کے حل کے سلسلے میں ایک موثر تنظیم کے طور پر اپنا کردار ادا کرے۔ان مقاصد کے حصول کیلئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد کو فروغ دینا ہو گا ۔

شاہ محمود قریشی نے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ افغانستان میں 40 سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے اور افغانوں کو مفاہمت اور تعمیر نو کے قابل بنانے کا ایک موقع موجود ہے۔افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی برادری کےسفارتی اور سیاسی رابطے افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام کے حصول کے لیے ناگزیر ہیں۔

بین الاقوامی برادری کی توقعات اور افغانستان میں زمینی حقائق کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی معیشت کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ افغانستان میں معاشی تباہی کے اثرات پڑوسی ممالک، خطے اور دیگر دنیا پر مرتب ہوں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ایک پڑوسی ملک کے طور پر افغانستان کو انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔پاکستان اقوام متحدہ، اور افغانستان کو انسانی امداد فراہم کرنے کے خواہشمند دیگر اداروں کے ذریعے افغانستان کو بین الاقوامی انسانی امداد کی فراہمی میں معاونت کیلئے تیار ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی بنیادوں پرامداد کی فراہمی کو مشروط کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان معیشت پر دباؤ کم کرنے کے ساتھ ساتھ بینکنگ سسٹم کی بحالی کے لیے میکانزم تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔افغانستان میں امن و سلامتی کی صورتحال کو قابو میں لانے ، نئے سرے سے تنازعات کو روکنے اور افغان مہاجرین کے کے بڑے پیمانے پر اخراج کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔

وزیر خارجہ نے سیکرٹری جنرل او آئی سی کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی بھارتی سنگین خلاف ورزیوں اور خطے کے امن و امان کو درپیش خطرات سے آگاہ کیااور کہا کہ ہم کشمیریوں کے لیے او آئی سی کی مسلسل حمایت کو سراہتے ہیں،

او آئی سی کی قراردادیں اور بیانات سے نہتے کشمیریوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے اپنے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد سے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو غیر قانونی طور پر بدلنے کیلئے کوشاں ہے۔

ہندوستان کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں نو لاکھ قابض افواج کے ذریعے، انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیاں بدستور جاری ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ آج نہتے کشمیری او آئی سی کی طرف دیکھ رہے ہیں،میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے لوگوں کو بھارتی استبداد سے نجات دلانے کیلئے آپ سے بطور سیکرٹری جنرل او آئی سی، ذاتی کاوشیں بروئے کار لانے کی درخواست کروں گا۔

پاکستان، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق، کشمیر تنازعہ کے منصفانہ حل کا متقاضی ہے۔ بین الاقوامی برادری، مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کی جوابدہی اور مواخذے کیلئے اقدام اٹھائے