نئی دہلی (نیوز ڈیسک)

نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیرمین  محمد یاسین ملک کو بھارت کی ایک خصوصی عدالت نے ٹیرر فنڈنگ  کیس میں  عمر قید کی سزا سنا دی ہے ۔ بدھ کے روزنئی دہلی میں این آئی اے عدالت میں استغاثہ کی طرف سے یاسین ملک کی جائیداد اور مالی اثاثوں کی تفصیلات  عدالت میں پیش کی گئی ۔یاسین ملک پر بغاوت، وطن دشمنی اور دہشت گردی   کے الزامات بھارت کے نئے دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے اور انڈین پینل کوڈ کے تحت عائد کیے گئے  تھے۔خصوصی عدالت کے جج پروین سنگھ کی عدالت میں10 مئی کی سماعت کے دوران انہیں 2017 میں، دہشت گردانہ حملوں کی سازش ، مجرمانہ سازش اور ملک دشمن خیالات کے اظہار جیسے جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا جبکہ19 مئی کو ان پر فرد جرم  عائد  کی گئی تھی ۔ یاسین ملک نے بھارتی عدالتی کارروائی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے  سرکاری  وکیل کی مدد لینے سے انکار کیا تھا ۔محمد یاسین ملک کو بدھ کے روزنئی دہلی میں این آئی اے عدالت میں پیش کیا گیا ۔این آئی اے نے یاسین ملک  کو سزاے موت دینے کا مطالبہ کیا۔ محمد یاسین ملک نے  اس موقع پرخصوصی عدالت کے جج پروین سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں یہاں کوئی بھیک نہیں مانگوں گا۔ آپ نے جو سزا دینی ہے دے دیجیے۔سزا قبول کر لوں گالیکن میرے کچھ سوالات کا جواب دیجیے۔ یاسین ملک نے کہا کہ اگر میں دہشت گرد تھا تو  بھارت کے سات وزیراعظم مجھ سے ملنے کشمیر کیوں آتے رہے؟ سابق بھارتی وزیراعظم واجپائی کے دور میں مجھے پاسپورٹ کیوں جاری ہوا؟ ہندوستان نے مجھے بیان دینے کی اجازت دی تھی کیونکہ میں مجرم نہیں تھااگر میں دہشت گرد تھا تو اس پورے کیس کے دوران میرے خلاف چارج شیٹ کیوں نہ فائل کی گئی؟ ہندوستان نے مجھے بیان دینے کی اجازت دی تھی کیونکہ میں مجرم نہیں تھا”اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے انڈیا سمیت دیگر ملکوں میں اہم جگہوں ہر لیکچر دینے کا موقع کیوں دیا گیا؟ کے پی آئی کے مطابق یاسین ملک نے  کہا کہ مجھے برہان وانی کے قتل  کے 30 منٹ کے اندر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یاسین ملک نے  بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو چیلنج کیا کہ وہ اس بات کی نشاندہی کریں کہ آیا وہ پچھلے 28 سالوں میں کسی دہشت گردانہ سرگرمیوں یا تشدد میں ملوث رہا ہے۔ یاسین ملک نے یہ بھی کہا کہ وہ مہاتما گاندھی کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں جب سے انہوں نے 1994 میں ہتھیار ڈالے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میں تب سے کشمیر میں عدم تشدد کی سیاست کر رہا ہوں۔ خصوصی عدالت کے جج پروین سنگھ نے یاسین ملک کے سوالات کو نظر انداز کیا اور کہا کہ  ان باتوں کا وقت گزر گیا ہے، اب یہ بتائیں کہ آپ کو جو سزا تجویز کی گئی ہے اس پر کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ یاسین  ملک نے  جواب میں کہا کہ میں عدالت سے بھیک نہیں مانگوں گا جو عدالت کو ٹھیک لگتا ہے وہ کرے۔ گزشتہ سماعت میں  یاسین  ملک نے خصوصی عدالت کی طرف سے ا نسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مجرم قرار دینے کے فیصلے کو مسترد کر دیا ۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یاسین ملک نے عدالت میں اپنے پر لگاے گے الزامات پر احتجاج کیا اور انہیں مسترد کر دیا، یاسین ملک نے عدالت کو بتایا  تھاکہ وہ آزادی پسند ہیں۔ انہوں نے عدالت کا بتایا کہ  مجھ پر لگائے گئے دہشت گردی سے متعلق الزامات من گھڑت ہیں۔انہوں نے جج سے مخاطب ہو کر کہا کہ  اگر آزادی مانگنا جرم ہے تو میں اس جرم اور اس کے نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ کے پی آئی کے مطابق بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نییاسین ملک کو فروری 2019میں سرینگر میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا اور بعد میں انہیں نئی دہلی کی تہاڑ جیل منتقل کر دیا گیا تھاجبکہ ان کے خلاف2017 میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ  کے  سیکشن ،16  ، ,18,17, اور20کے تحت  مقدمہ درج ہے ، تعزیرات ہند کی دفعہ 120-B (مجرمانہ سازش) اور 124-A (غداری کا مقدمہ بنایا گیا ہے ۔ اس مقدمے میں دوسرے کشمیری رہنماوں، شبیر شاہ، مسرت عالم، سابق ایم ایل اے راشد انجینئر، تاجر ظہور احمد شاہ وتالی، بٹہ کراٹے، آفتاب احمد شاہ، اوتار احمد شاہ، نعیم خان، بشیر احمد بٹ عرف پیر سیف اللہ اور کئی دیگر کو شامل کیا گیا ہے ۔واضح رہے کہ عدالت نے کامران یوسف، جاوید احمد بھٹ اور سیدہ آسیہ اندرابی کو بری کر دیا۔ 58 سالہ یاسین ملک پر 1989 میں اس وقت کے انڈین وزیرداخلہ اور کشمیر کے سابق وزیراعلی مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سید کے اغوا کرنے اور 1990 میں انڈین فضائیہ کے چار افسروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کا بھی الزام ہے، تاہم   اس معامے میں ایک دوسری عدالت میں  یاسین ملک پر مقدمہ چل رہا ہے۔10 مئی کی سماعت میں یاسین ملک کے علاوہ جن دیگر محبوس  حریت پسندوں کے خلاف فردجرم عائد کی گئی تھی ان میں شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، الطاف شاہ، آفتاب شاہ، نول کشور کپور اور فاروق احمد ڈار عرف بِٹہ کراٹے سمیت گیارہ افراد شامل ہیں۔عدالت نے پاکستان میں مقیم محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین، جو کشمیر میں سرگرم عسکری گروپوں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل اور حزب المجاہدین کے سربراہ ہیں، کے ساتھ ساتھ جماعت الدعو کے سربراہ حافظ سعید کو اشتہاری مجرم قرار دیا ہے۔یااسین ملک کم سنی میں ہی حریت پسند صفوں میں شامل ہو گئے تھے اور 1980 کے دوران ‘اسلامِک سٹوڈنٹس لیگ’ کے جنرل سیکریٹری بنے تھے۔ 1986 میں سرینگر میں انڈیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہونے والے عالمی ایک روزہ کرکٹ مقابلے کے دوران انڈیا مخالف نعرے بازی، پتھراو اور میچ کے وقفے میں پِچ کھودنے کے الزام میں یاسین ملک کئی ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیے گئے تھے۔ بی بی سی کے مطابق 1987 میں وہ  حریت پسندوں کے سیاسی اتحاد ‘مسلم متحدہ محاذ’ کے قریب ہوگئے اور مقامی اسمبلی کے انتخابات میں انھوں نے جماعت اسلامی کے رہنما اور محاذ کے امیدوار محمد یوسف شاہ کے لیے انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔1988 میں یاسین ملک پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر چلے گئے تھے واپسی پر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نامی عسکری تنظیم کے مرکزی رہنما بن گئے۔ ایک برس بعد 1989 میں لبریشن فرنٹ نے جیل سے اپنے ساتھیوں کو رہا کروانے کے لیے اس وقت کے انڈین وزیرداخلہ مفتی محمد سید کی بیٹی روبیہ سید کا اغوا کیا تھا اور کئی روز کے مذاکرات کے بعد جب تنظیم کے کئی مسلح لیڈروں کو رہا کیا گیا تو روبیہ سید کو بھی رہا کر دیا گیا تھا۔1990 میں لبریشن فرنٹ کے مسلح عسکریت پسندوں نے انڈین فضائیہ کے چار افسروں پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ بازار سے سبزی خریدنے میں مصروف تھے۔ حکومت نے اس حملے کے لیے بھی یاسین ملک کو براہ راست ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔  کے پی آئی کے مطابق کئی برس تک مسلح سرگرمیاں جاری رکھنے کے بعد 1994 میں یاسین ملک نے بھارتی فورسز کے خلاف یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کر کے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو ایک سیاسی تنظیم قرار دے دیا اور عہد کیا کہ وہ مسلہ کشمیر حل کرنے کے لیے عدم تشدد کی پالیسی پر گامزن رہیں گے۔ اسی سال حریت  پسندوں کا اتحاد حریت کانفرنس بھی وجود میں آیا۔گذشتہ عشرے کے وسط میں یاسین ملک نے وادی بھر میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حق میں ایک دستخطی مہم چلائی جس کا نام ‘سفرِ آزادی’ تھا۔ اس مہم کی عکس بندی اور کشمیر کے بارے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں کشمیریوں کو کلیدی کردار دینے کا مطالبہ لے کر وہ 2006 میں اس وقت کے انڈین وزیراعظم منموہن سنگھ سے بھی ملے تھے۔