سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلی پنجاب اختیارات معطل کردیے

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار، حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کریں گے،سپریم کورٹ

بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ، اگر پارٹی سربراہ کی ہی بات ماننی ہے تو اس کا مطلب پارٹی میں آمریت قائم کردی جائے،عدالت

جمہوری روایت یہی ہے کہ پارلیمانی پارٹی طے کرتی ہے کہ کس کی حما یت کرنی ہے، پارٹی سربراہ   ڈائریکشن کی خلاف ورزی پر رپورٹ کرسکتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن

معاملہ تشریح کا نہیں بلکہ صحیح انداز میں سمجھنے کا ہے، سپریم کورٹ نے  پی ٹی آئی،مسلم لیگ ق کی درخواست پر ابتدائی سماعت کا تحریری حکم جاری کر دیا

لاہور(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلی کام کریں گے۔  سپریم کورٹ نے وزیراعلی پنجاب کے انتخاب پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے حمزہ شہباز،چیف سیکریٹری سمیت فریقین کونوٹسزجاری کردیئے گئے۔عدالت نے تحریری حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر معاملہ کافی پیچیدہ ہے، ڈپٹی اسپیکر نے اپنی رولنگ میں لارجر بینچ کا حوالہ دیا، لیکن انہوں نے اس پیرا گراف کو پوائنٹ نہیں کیا جس کا حوالہ دیا گیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ڈائریکشن کی خلاف ورزی پر رپورٹ کرسکتا ہے۔جمہوری روایت یہی ہے کہ پارلیمانی پارٹی طے کرتی ہے کہ کس کی حما یت کرنی ہے۔تحریری حکم  میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر، حمزہ شہباز، چیف سیکریٹری سے اہم معاونت کی توقع ہے۔تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق  کی درخواست پر سماعت  سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں  ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا ب ندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ  نے سماعت کی،  بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے  دوران سماعت موقف اپنایا کہ  وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوا، حمزہ شہباز نے 179 جبکہ پرویز الہی نے 186ووٹ حاصل کیے لیکن ڈپٹی اسپیکر نے مسلم لیگ ق کے دس ووٹ مسترد کردیے۔ ڈپٹی اسپیکر نے چوہدری شجاعت حسین کے مبینہ خط کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ ق کے ووٹ مسترد کیے۔  سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو  طلب کیا، چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈپٹی سپیکر الیکشن کا مکمل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کریں اور آ کر بتائیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے کس پیرا کی بنیاد پر رولنگ دی۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کیے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب  کو بھی معاونت کے لیے سپریم کورٹ طلب  کیا۔ پرویز الہی کے وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے حلف لے لیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑنا، ہم نے آئین اور قانون کی بات کرنی ہے، آپ لوگ بھی ذرا صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں۔ عدالت نے حمزہ شہباز اور چیف سیکریٹری پنجاب کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا،  بعدازاں  سپریم کورٹ نے پرویز الہی کی درخواست پر دوبارہ سماعت شروع کی تو ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے عرفان قادر نے وکالت نامہ جمع کرایا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کو طلب کیا تھا وہ کیوں نہیں آئے جس پر عرفان قادر نے کہا کہ میں موجود ہوں عدالت کی معاونت کروں گا۔ چیف جسٹس  عمر عطا بندیال نے کہا کہ کمرہ عدالت میں اتنا رش ہے، ہدایت کی گئی تھی متعلقہ لوگ ہی آئیں، جس کے بعد بینچ نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔ اور کہا کہ کورٹ روم میں متعلقہ لوگ ہی ہوں گے پھر سماعت شروع کریں گے۔  چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میںبینچ نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے حمز شہباز کا بطور وزیراعلیٰ یکم جولائی کا سٹیٹس بحال کر دیا۔ حمزہ شہباز ٹرسٹی  وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے۔ عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط ہے۔ اگر پارٹی سربراہ کی ہی بات ماننی ہے تو اس کا مطلب پارٹی میں آمریت قائم کردی جائے۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیسز کی سماعت اتوار کے روز بھی کی جائے۔ حمزہ شہباز اس اہل نہیں وہ وزیراعلیٰ کے عہدے پررہ سکین۔ حمزہ شہباز کو کابینہ بنانے سے روکا جائے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اتوار کو سماعت نہیں ہو سکتی عدالت اس کیس کو جلد سماعت کرے گی۔ عدالت نے ریکارڈ مانگا تھا کیا ریکارڈ آیا ہے۔ ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ اس حوالے سے میرے کلائنٹ نے مجھے کوئی اپ ڈیٹ نہیں دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم وہ چٹھی دیکھنا چاہتے ہیں جو پارٹی سربراہ کی جانب سے بھیجی گئی۔ اس پر عرفان قادر نے کہا کہ اگر پارٹی سربراہ چودھری شجاعت کو بھی فریق بنا لیاجائے تو بہتر ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بادی النظر میں آپ بھی سپیکر سے اتفاق کرتے ہیں۔ عدالت جائزہ لے گی پارٹی سربراہ اور پارلیمانی سربراہ کی ہدایات میں کیا فرق ہے۔ عدالت اسی موضوع پر17مئی کا فیصلہ دے چکی ہے۔ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اس فیصلے کیخلاف ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 23 اے، 63بی کیا کہتی ہے، عدالت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پر عرفان قادر نے موقف اپنایا کہ ڈپٹی سپیکر نے اسی فیصلے کیمطابق رولنگ دی۔اس موقع پر حمزہ شہباز کے وکیل منصور سرور نے کہا کہ مجھے درخواست کے قابل سماعت ہونے پراعتراض ہے۔ انفرادی شخص کا معاملہ آئین کےآرٹیکل 184 کیسیکشن تین کے تحت قابل سماعت نہیں۔ یہ سیدھا سادھا الیکشن کا معاملہ ہے جسے الیکشن کمیشن جانا چاہیے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ سادہ سوال ہے پارٹی سربراہ کی ہدایت چلنی ہے یا پارلیمانی سربراہ کی ہدایت چلنی ہے۔ حمزہ کے وکیل نے کہا کہ اگر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف فیصلہ آیا تو صوبے کے انتظامی امور متاثر ہوں گے۔فیصلے سے قبل سماعت واضح رہے کہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے انتخاب ہوا، جس میں مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز دوبارہ وزیر اعلی منتخب ہوگئے تھے۔وزیر اعلی کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو 179ووٹ جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے امیدوار پرویز الہی کو 186 ووٹ ملے تھے۔تاہم صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پرویز الہی کو ملنے والے ووٹوں میں سے مسلم لیگ ق کے تمام 10 ووٹ مسترد کردیے تھے جس کے بعد حمزہ شہباز 3 ووٹوں کی برتری سے وزیر اعلی پنجاب منتخب ہو گئے تھے۔ عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔