پبلک اکائونٹس کمیٹی میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تحقیقی اداروں کے بجٹ کی گزشتہ چھ سالوں کے دوران باضابطہ فورم سے منظوری حاصل نہ کرے کا انکشاف

تقرریوں میں سنگین  بے قاعدگیوں  کی نشاندہی  ۔ 6 اعلیٰ افسران کو رولز کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے تعینات اور 21,20 گریڈ میں ترقیاں دی گئیں

کمٹی نے تحقیقات کیلئے ایف آئی اے سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی

 ذیلی اداروں کو فوری طورپر اربوں روپے کے اکائونٹس نجی بنکوں سے سرکاری بنکوں میں منتقل کرنے کی ہدایت

  پاکستان سائنس فائونڈیشن اور  پی سی ایس آئی آر کی کارکردگی کو ناقص قرار

سائنسی  ریسرچ  کے سندھ میں اداروں  میں گدھے ، بھینس بندھی ہیں ان مراکز کو شادیوں کیلئے  ان کو استعمال کیا جاتا ہے صرف  جھنڈا لگانے کیلئے وزیر بنتا ہے

  ایسی وزارت کو ختم ہی کردینا چاہیے اور متعلقہ ریسرچ افسران  متعلقہ وزارتوں میں بھیج دئیے جائیں،پی اے سی

اسلام آباد( ویب  نیوز)

پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تحقیقی اداروں کے بجٹ کی گزشتہ چھ سالوں کے دوران  باضابطہ فورام   سے منظوری حاصل نہ کرے کا انکشاف ہوا ہے ، تقرریوں میں سنگین  بے قاعدگیوں  کی نشاندہی ہوئی ہے۔ 6 اعلیٰ افسران کو رولز کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے تعینات اور 21,20 گریڈ میں ترقیاں دی گئیں ۔ کمٹی نے تمام افسران  بشمول اس ادارے کے سابقہ افسر موجودہ چیئرمین  بورڈ آف انٹر میڈیٹ سیکرٹری ایجوکیشن کو عہدے سے ہٹانے اور سنگین نوعیت کی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی ۔ کمیٹی  نے آڈٹ کو وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور ذیلی اداروں  کے پرفارمنس  آڈٹ کو ہدایت کردی ہے۔ ذیلی اداروں کو فوری طورپر اربوں روپے کے اکائونٹس نجی بنکوں سے سرکاری بنکوں میں منتقل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پی اے سی نے بالخصوص پاکستان سائنس فائونڈیشن اور  پی سی ایس آئی آر کی کارکردگی کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ  سائنسی  ریسرچ  کے سندھ میں اداروں  میں گدھے ، بھینس بندھی ہیں ان مراکز کو شادیوں کیلئے  ان کو استعمال کیا جاتا ہے صرف  جھنڈا لگانے کیلئے وزیر بنتا ہے اور جس رکن کو وزیر بنانا مجبوری ہوتا ہے  آخری نمبر پر موجود اس رکن کو وزیر سائنس و ٹیکنالوجی لگا دیا جاتا ہے اس لئے  ایسی وزارت کو ختم ہی کردینا چاہیے اور متعلقہ ریسرچ افسران  متعلقہ وزارتوں میں بھیج دئیے جائیں۔ پی اے سی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی صدارت میں  بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ وزارت سائنس وٹیکنالوجی اور اس کے ذیلی اداروں کے حسابات کی جانچ پڑتال کی گئی۔ اجلاس میں وزارت خزانہ کے نمائندے کو اونگھ آگئی تھی  اور کارروائی سے لاتعلق نظر آئے  جس پر نور عالم خان نے انہیں کہاکہ فنانس والوکیا کررہے ہو آڈٹ پیراز پر کوئی ان پٹ بھی نہیں آرہا جبکہ پی سی ایس آئی آروالے اپنی رقوم سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی بجائے  نجی بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ تمام وزارتوں کے خود ساختہ آزاد و خودمختار اداروں نے  اربوں کھربوں نجی بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں  اور انہیں فائدہ دیا جارہا ہے  وزارت خزانہ کے نمائندے نے کہاکہ اپنی مرضی نہیں چل سکتی جو بینک زیاد منافع دیں  وہی اکائونٹس کھولے جاتے ہیں آڈٹ کے مطابق 1973کے آئین کے حوالے سے  بڑی تعداد میں قوانین بنے مگر بیشتر کے حوالے سے  رولز ہی نہیں بنے۔ نور عالم خان نے کہاکہ افسران  خود قواعد بنانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تاکہ آزادی سے سرکاری پیسے کو استعمال کرسکیں۔ کمیٹی نے وزارت منصوبہ بندی سے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز کے استعمال کی سہ ماہی بنیاد پر رپورٹ مانگ لی آڈٹ نے انکشاف کیا کہ پاکستان  سائنس فائونڈیشن کے  سائنس کے طلباء کو بیرون ملک بجھوانے کے پانچ سالہ منصوبے جس کا تخمینہ سوا ارب روپے لگایا گیا۔ رقم کیلئے 29جون کو درخواست بجھوائی گئی جس پر یہ رقم لیپس ہوگئی۔ نور عالم خان نے کہاکہ وزارتوں کی نالائقی کی وجہ سے عوامی پیسہ ضائع ہورہا ہے ، منصوبہ شروع نہیں ہوا تھا اور پاکستان سائنس فائونڈیشن نے  بھاری مراعات پر افسران تعینات کردئیے ۔ ڈاکٹرراجہ رضی الحسنین کو بغیر اشتہار کے پہلے 17 گریڈ میں چند دنوں کے بعد براہ راست 19اور 20گریڈ میں ترقی دیدی گئی۔ ڈی جی  ڈاکٹر اکرم شیخ اور مرزا  حبیب علی کی بھی اسی طرح تقرریاں اور ترقیاں ہوئیں۔ آڈٹ نے بتایا کہ بے قاعدگی کی نشاندہی بروقت ہوگئی تھی۔ مگر پی ایس ایف نے  بورڈ سے  خلاف ضابطہ ترقیوں اور تقرریوں کی منظوری لے لی۔ پی اے سی نے بورڈ ارکان کو بھی جوابدہ بنانے کی ہدایت کردی اور ایف آئی اے کو ان سے بھی پوچھ گچھ کی ہدایت کی گئی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیاکہ متذکرہ پراجیکٹ کے  جمیل قریشی ، ایڈوائزر سول ورکس  خالد قریشی ، اکائونٹس آفیسر رابعہ اشرف اور اسسٹنٹ لائبریرین عرفان علی تیمور کی بھی خلاف ضابطہ تقرریاں ہوئیں۔ منصوبے کے پی ڈی  کو چھ لاکھ روپے پر رکھا گیا۔ کمیٹی نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ذیلی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ اکائونٹس زیادہ منافع دینے والے بینکوں میں منتقل کیے جائیں۔ پی اے سی نے  محکمانہ آڈٹ کمیٹی کی جانب سے  وزارت سائنس کے پیراز نمٹانے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے  واضح کیا کہ  ڈی اے سی پی اے سی کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتی۔ آڈٹ حکام بھی اس حوالے سے  محتاط رہیں۔ حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ مرا حبیب علی کی تقرری کے حوالے سے یونیورسٹی کا لیکچرار ہونا لازمی تھا مگر 20گریڈ تک ترقی دیدی گئی اور اب یہ چیئرمین  بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور ہیں۔ سنگل پینل کی بنیاد پر افسر تعینات کردیا گیا۔ کمیٹی نے فوری طورپر ان سمیت  تمام متعلقہ افسران کو عہدوں سے ہٹانے کی سفارش کردی ہے۔ کمیٹی نے  تمام آڈٹ پیراز  ایف آئی اے کے سپرد کرتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔ کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ  نام نہاد  آزاد وخودمختار اداروں کو مسابقت کے ذریعے اپنے اکائونٹس کیلئے  بینکوں کا تعین کرنا چاہیے وہ سب جگہوں پر سرکاری  پیسے کو نہیں رکھ سکتے کمیٹی نے او جی ڈی سی ایل کے حکام کی جانب سے  جی آئی ڈی سی  کی مد میں متنازع ریکوریز والوں کو نوٹسز جاری کرنے پر واضح کیا ہے کہ پی اے سی کے فیصلے پر غلط طریقے سے عملدرآمد کیا جارہا ہے ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا ، ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی پی ایل میں67ارب روپے کے  واجبات کی ریکوری کی ہدایت کی گئی تھی کیونکہ  ان واجبات کے حوالے سے کوئی تنازع نہیں ہے شاہدہ اختر علی نے حلال اتھارٹی کیلئے متعلقہ اسٹاف تعینات نہ کرنے کا معاملہ اٹھایا پی اے سی نے اس حوالے سے بھی ہدایت کردی ہے جبکہ پی سی ایس آئی آر لاہور کی جانب سے  اپنی آمدن سرکاری خزانے میں جمع نہ کروانے پر ایک ہفتے میں  ڈی اے سی  میں یہ معاملہ پیش کرکے رپورٹ طلب کی گئی ہے نزہت پٹھان نے کہاکہ  سائنس کے ریسرچ اداروں کی کوئی کارکردگی نہیں ہے سندھ  میں ان کے اداروں میں گدھے، بھینس بندھے ہوئے ہیں شادیاں اور ڈھول دھمال ہورہی ہے۔ ان کی ریسرچ پر مریضوں کا اعتماد نہیں ہے بلکہ ان کو خود بھی اپنی تحقیق پر اعتبارنہیں ہے یہی وجہ  ہے کہ کوئی ان کی چیزیں استعمال نہیں کرتا۔ ارکان نے کہاکہ قواعد کے حوالے سے 40فیصد وزارتوں نے کاپی پیسٹ کیے ہوئے ہیں۔ بعض ارکان نے نے وزارت  سائنس و ٹیکنالوجی وذیلی اداروں کی کارکردگی پر وائٹ پیپر جاری کرنے کی تجویز دیدی۔ نور عالم خان نے کہاکہ وزارت قانون  کی بھی نالائقی شامل ہے۔ آڈٹ نے بتایا کہ پی سی ایس آئی آر لاہورنے چھ سالوں سے اپنے بجٹ کی منظوری نہیں لی اور بغیر قواعد کے  سرکاری رقم کو خزانے میں منتقل کرنے کی بجائے  نجی اکائونٹس میں رکھا گیا ہے۔