ڈھاکا (ویب نیوز)

بنگلادیش کے دارالحکومت میں ہزاروں افراد پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجا سڑکوں پر نکل آئے جس کے دوران پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈھاکا میں ہزاروں مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔مظاہرین میں اپوزیشن رہنما بھی موجود تھے جنھوں نے وزیراعظم پر انتخابات میں دھاندلی کرکے حکومت بنانے اور پھر ملک میں مہنگائی سمیت پٹرول اور بجلی بحران کا ذمہ دا ٹھہرایا۔کئی مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جس میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔ملک بھر میں بڑھتے ہوئے مظاہروں کو دیکھتے ہوئے پولیس نے کریک ڈاون آپریشن کیا جس میں پوزیشن جماعت کے دو بڑے رہنماوں کو گرفتار کرلیا گیا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق مظاہرین نے گلاب باغ اسپورٹس گراونڈ میں منعقدہ جلسے کے دوران شیخ حسینہ ووٹ چور ہے کے نعرے لگائے جس کے بعد مظاہرین ارد گرد کی گلیوں میں پھیل گئے۔منگل کے روز حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ہیڈ کوارٹر پر سیکورٹی فورسز کے دھاوا بولنے کے بعد دارالحکومت میں صورتحال کشیدہ تھی جب کہ اس کارروائی کے دوران کم از کم ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے کہا کہ پارٹی کے 2 سرکردہ رہنماوں کو گزشتہ روز تشدد پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جب کہ 30 نومبر سے اب تک 2 ہزار کارکنوں اور حامیوں کو حراست میں لے لیا گیا تاکہ ریلی کو آگے جانے سے روکا جاسکے۔اقوام متحدہ سمیت مغربی ممالک کی حکومتوں نے ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک بنگلہ دیش میں سیاسی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا۔بنگلہ دیش کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں لیکن حالیہ برسوں میں شیخ حسینہ نے چین کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کیے ہیں جب کہ بیجنگ نے کئی ارب ڈالر کے انفرا اسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔حزب اختلاف ملک بھر میں مظاہرے کر رہی ہے اور شیخ حسینہ سے استعفی دینے اور نگراں حکومت کے تحت انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جسے وزیر اعظم نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک عہدیدار نے دعوی کیا کہ ہفتہ کی صبح تک تقریبا 2 لاکھ لوگ ریلی میں شامل ہوچکے تھے۔پارٹی ترجمان ظہیرالدین سواپن نے  فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ شیخ حسینہ کا استعفی، پارلیمنٹ کی تحلیل اور ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔دوسری جانب ڈھاکا میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان فاروق احمد نے ان اعدادوشمار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پنڈال میں 30 ہزار سے زیادہ افراد کی گنجائش ہی نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اب تک کوئی تشدد نہیں ہوا لیکن سواٹ ٹیمز، انسداد دہشت گردی یونٹس اور کینائن اسکواڈز چوکس اور تیار ہیں۔احتجاج کے دوران پولیس نے شہر کے داخلی راستوں پر چوکیاں قائم کیں اور تقریبا 2 کروڑ لوگوں کی آبادی پر مشتمل شہر میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے۔صرف چند سائیکل رکشے اور کاریں ڈھاکا کی عام طور مصروف اور رش والی سڑکوں پر دیکھیں گئیں جب کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے عہدیداروں نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے لوگوں کو ریلی میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے غیر سرکاری ٹرانسپورٹ ہڑتال کرانے کی کوشش کی ہے۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے جمعے روز بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کارکنوں پر حملہ کیا ۔یوں بنگلادیش میں معاشی صورت حال کافی بہتر ہے تاہم عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث ڈالرز میں ادائیگی کے توازن میں مشکلات درپیش ہیں جس کے لیے بنگلادیش نے آئی ایم ایف سے بھی رجوع کیا ہے۔خیال رہے کہ ملک میں 15 سال سے شیخ حسینہ واجد برسر اقتدار ہیں جو اس سے قبل وہ 1996 سے 2001 تک بھی وزیر اعظم رہ چکی ہیں اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک اپوزیشن لیڈر رہیں۔اس وقت اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا جو دو بار وزیراعظم رہ چکی ہیں، جیل میں کئی اپوزیشن رہنماوں کے ہمراہ قید ہیں۔۔