ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام مزاکرے سے ماہرین کا خطاب
اسلام آباد (ویب نیوز)
حکومت تمباکو مصنوعات پر عائد ٹیکس میں 70 فیصد شرح میں اضافہ کرکے خوردہ قیمت بڑھائے، یہ اقدام ملکی معیشت اور عوام کی صحت کی بہتری کے لئے اہم اقدام ہوگا۔غیر قانونی تمباکو کی یلغارملک کی معیشت اور قوم کی صحت کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے، اربو ں کے ٹیکس چوری روکی جائے۔ حکومت 65 ارب روپے تک مزید محصولات حاصل کر سکتی ہے۔ تمباکو مصنوعات کے برانڈرجسٹریشن و تجدید پر بھاری فیس عائد کی جائے۔ تمباکو کی کاشت پربھاری ٹیکس کا نفاز کر کے تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر میں تمباکو نوشی سے اموات ایک لاکھ ستر ہزار سالانہ سے مزید بڑھ رہی ہیں۔تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کے کنسر، امراض قلب،نظام تنفس سمیت مزید بیماریوں کا سبب ہیں۔ ایف بی آر عمل میں سختی و شفافیت کو فوری یقینی بنائے۔ تمباکو صنعت کی پیداوار کی شرح سے ٹیکس کے نفاذ اور بھاری جرمانوں کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ تمباکو مصنوعات کی تجارت کے حوالے سے جامع پالیسی سامنے لائی جائے۔تمباکو مصنوعات کے حوالے سے قوانین پر سمجھوتہ معیشت اور معاشرے کے ساتھ کھلی دشمنی کے مترادف ہے۔اس امر کا اظہار ماہرین نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(ایس ڈی پی آئی ) کے زیراہتمام معیشت میں بہتری بذریعہ تمباکومصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ ممکن ہے کے موضوع پر منعقدہ مذاکرے کے دوران کیا۔اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے ڈائریکٹر سینئرمحقق، ممتاز دانشور ڈاکٹر شفقت منیرنے کہا کہ پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ تمباکو مصنوعات استعمال کرنے والو ں میںدسویں نمبر پر ہے۔ جس پر فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ تمباکو مصنوعات پرعائد ٹیکس کی شرح 70فیصد اضافہ کر کے معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف معیشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے ہے بلکہ اس سے مربوط امراض کی روک تھام ممکن ہو سکے گی ۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی درآمد شدہ تمباکو مصنوعات جو کہ دوسرے ممالک میں بنائی جا تی ہیںپاکستان میں اربوںروپے کا ٹیکس چوری کا سبب بن رہی ہیں۔یہ کھلے عام ملکی معیشت اور قوم کی صحت کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ اس موت کی تجارت کو فوری روکا جائے اور زندگی کے سوداگروں کو نکیل ڈالی جائے۔اس مذاکرے کے دوران ادارہ برائے سماجی ترقی کے سر براہ آصف اقبال نے کہا کہ تمباکو مصنوعات کے اعدادو شمار پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔اس صنعت پر پیداوار کی شرح سے ٹیکس کا نفاذممکن بنایا جائے جو مختصر عرصہ اور جائزہ پر بڑھا یا جاتا رہے ان مصنوعات پر 70فیصد تک مزید ٹیکس نافذ کر کے حکومت 65 ارب روپے تک محصولات حاصل کر سکتی ہے۔ مذاکرے سے اظہار خیال کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے قائم مقام سربراہ ماہر امور محصولات ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ تمباکو مصنوعات کے برانڈ کی رجسٹریشن و سالانہ تجدید پر بھاری فیس و پیشگی ٹیکس کی وصولی کا نظام وضع کرنا ناگزیر ہے ، اس سے اس کے صارفین میں کمی کے ساتھ عوام میں تمباکو مصنوعات سے جڑے امراض سے چھٹکارہ ممکن ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے کاشتکاروں کوٹیکس نیٹ میں شامل کر کے بھاری ٹیک وصول کیا جائے۔ تمباکو مصنوعات کی صنعت اور غیر ملکی تمباکو مصنوعات کے درآمد کنندگان پر خصوصی سی ایس آر پالیسی کے شرکت داری سے مشروط کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے ۔ تمباکو مصنوعات کی تشہیری پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے ریسرچر سید واصف علی نقوی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں تمباکو مصنوعات کے استعمال کے باعث ایک لاکھ ستر ہزار اموات سالانہ ہیں جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔اس میں امراض قلب، پھیپھڑوں کا کینسر اور سانس کی بیماریوں سمیت دیگر بیماریوں میں شدت کا سبب ہے انہوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر اس کی کمی کے لئے کوشش ہو رہی ہے جب کہ پاکستان میںاس کے تصرف کی شرح24 فیصد ہے جس میں13 سے 15 سال کی عمر کے نوجوان 10.7 % صارف ہیں۔ پاکستان انسداد تمباکو نوشی عالمی معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہے جس میں ان مصنوعات پر ٹیکس میں 70 فیصدتک اضافہ کا نفاذبھی شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت مصنوعات پر 44.3 % تک ڈیوٹی عائد ہے ۔انہوں نے مزید بتایا کہ چبانے والی تمباکو مصنوعات کی غیر قانونی در آمدبھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے پالیس وضع کرنا چاہئے۔ اس موقع پر ایف بی آر شعبہ ٹریک اینڈ ٹریس کے سر براہ عبدالواحد عقیلی نے کہا کہ شفافیت کا نظام نافذ ہے۔ پہلے مرحلے میں 8 کمپنیوں کو اس دائرے میں لایا گیااو ر مزید 9 کمپنیوں کو شامل کرنے پر کام ہو رہا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے عوامی آگہی کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہر سطح پر غیر قانونی خرید و فروخت کو روکا جا سکے ۔ اس موقع پرہارٹ فائل کے محقق عمار رشید نے بتایا کہ تمباکو مصنوعات کی پیدا وار و تجارت کی رپورٹنگ میں بھاری بدعنوانیاں کی جا رہی ہیں۔انہوں نے تجویز دی کہ پیداوار کے منافع سے ٹیکس کی شرح متعین کی جائے اور بھاری جرمانوں کا سختی سے نفاذ کیا جائے۔ اس موقع پر ہیلتھ سینڈیکیٹ کے سربراہ منہاج السراج نے کہا کہ تمباکو مصنوعات کی رجسٹرڈ مارکیٹ اور غیر قانونی تجارت کے حوالے سے قوانین کا سختی سے نفاذ عمل میں لایا جائے۔ اس حوالہ کے با اختیار ٹاسک فورس تشکیل دی جائے ۔۔