اسلام آباد (ویب نیوز)

  • کیا چیف الیکشن کمشنر عدالت آئے ہیں؟،جسٹس اعجازالاحسن
  •  چیف الیکشن کمشنر کی طبیعت خراب ہے اس وجہ سے نہیں آ سکے،سیکرٹری الیکشن کمیشن
  •  کیا الیکشن کمیشن عام حالات میں تبادلے اور تعیناتی کی اجازت دے سکتا ہے،جسٹس مظاہرعلی نقوی
  •  الیکشن کمیشن اہم حالات میں تبادلے کی اجازت قوانین کے مطابق دے سکتا ہے،جسٹس اعجازالاحسن
  • زبانی درخواست کے بعد تحریری درخواست کی گئی تھی، الیکشن کمیشن میں پہلے اس طرح تبادلے ہوتے رہے ہیں،سیکرٹری الیکشن کمیشن
  •  زبانی درخواست پر کیسے تبادلہ کر دیا گیا، کس نے چیف الیکشن کمشنر کو یہ اختیار دیا،جسٹس منیب اختر
  • کیا الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو تقویض کردیے ہیں؟جسٹس منیب اختر
  •  اختیارات تقویض کرنے کی کوئی دستاویز موجود نہیں ہے،ڈائریکٹر جنرل لائ

 

سپریم کورٹ نے سابق کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او)لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا حکم معطل کردیا۔ جمعہ کو سی سی پی او غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کی سماعت عدالت عظمی کے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی ۔دورانِ سماعت سیکریٹری الیکشن کمیشن اور ڈائریکٹر جنرل (لائ) عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز میں جسٹس اعجاز الاحسن سے استفسار کیا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر عدالت آئے ہیں؟۔جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر کی طبیعت خراب ہے اس وجہ سے نہیں آ سکے۔انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب نے 23 جنوری کو پہلے سی سی پی او کا تبادلہ کرنے کی زبانی درخواست کی۔جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن عام حالات میں تبادلے اور تعیناتی کی اجازت دے سکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن اہم حالات میں تبادلے کی اجازت قوانین کے مطابق دے سکتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ زبانی درخواست پر کیسے تبادلہ کر دیا گیا، کس نے چیف الیکشن کمشنر کو یہ اختیار دیا ہے کہ زبانی درخواست پر تبادلہ کر دے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی مسٹر ایکس کال کر کے تبادلے کا کہے تو کیا قانون اس کی اجازت دیتا ہے، کس قانون کے تحت نگران حکومت کے کہنے پر اسسٹنٹ کمشنرز تک تبدیل کر دیئے گئے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو تبادلے کی اجازت کا اختیار ہے صرف چیف الیکشن کمشنر کو نہیں، کیا یہ الیکشن کمیشن کی یہ روایت ہے کہ زبانی درخواست پر تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ زبانی درخواست کے بعد تحریری درخواست بھی کی گئی تھی، الیکشن کمیشن میں پہلے بھی اس طرح تبادلے ہوتے رہے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ غلام محمود ڈوگر کا تبادلہ زبانی درخواست پر کر دیا گیا تھا پھر تحریری درخواست آئی۔سیکرٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے 23 جنوری کو غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کی زبانی درخواست کی، 24 جنوری کو تحریری درخواست آئی اور 6 فروری کو منظوری دی گئی۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا عام حالات میں بھی زبانی درخواست پر احکامات جاری ہوتے ہیں؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ زبانی درخواست آئی، منظوری ہوئی اور عمل بھی ہوگیا، عمل درآمد کے بعد خط و کتابت کی گئی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا سرکاری ادارے زبانی کام کرتے ہیں؟ کیا آئینی ادارے زبانی احکامات جاری کر سکتے ہیں؟ چیف الیکشن کمشنر نہیں تبادلوں کی منظوری الیکشن کمیشن دے سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو تقویض کردیے ہیں؟۔ڈائریکٹر جنرل لا نے کہا کہ اختیارات تقویض کرنے کی کوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔پنجاب کی نگران حکومت نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو 23 جنوری کو پنجاب سروس اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔بعدازاں عدالت نے پنجاب کی نگراں حکومت کی جانب سے سی سی پی او لاہور کے تبادلے کا حکم معطل کردیا۔mk

  • قانونی ٹیم کی رائے کے بعد چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ  میں پیش نہیں ہوئے
  •  چیف الیکشن کمشنر ، آئین کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے سامنے پیش ہونے کے پابندنہیں،قانونی ٹیم

قانونی ٹیم کی رائے کے بعد چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر سکندر سلطان راجہ سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلہ کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے پیش نہ ہوئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل دورکنی بینچ نے گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر کو جمعہ کے روزسماعت میں دوبارہ پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر کو قانونی ٹیم کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ عدلیہ کے سامنے پیش ہونے کے پابند نہیں۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سے قبل کوئی بھی چیف الیکشن کمشنر عدلیہ کے سامنے پیش نہیں ہوتا تھا۔ جمعرات کے روز چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر سکندر سلطان راجہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے، جس کے بعد انہیں دوبارہ جمعہ کے روز طلب کیا گیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر نے اپنی قانونی ٹیم سے رائے طلب کی تھی کہ کیا انہیں سپریم کورٹ میں پیش ہونا چاہیے یا نہیں۔ اس پر چیف الیکشن کمشنر کو قانونی ٹیم کی جانب سے بتایا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر ، آئین کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے سامنے پیش ہونے کے پابندنہیں۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سے قبل کوئی چیف عدلیہ کے سامنے پیش نہیں ہوتا تھا۔