سپریم کورٹ ، بجلی بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پرفریقین سے دلائل طلب

 عدالت نے درخواستوںپراٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان کو نوٹس جاری کردیا

بعض مدعا علیہان کو گزشتہ روز نوٹس موصول ہوئے ہیں اور بعض کو نوٹسز موصول نہیں ہوئے،خواجہ طارق اے رحیم

اگر درخواست کاروائی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو بڑھائیں اگر نہیں تو ہم وقت دے دیتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ

ہماری استدعا ہے کہ کیس کو جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے،وکیل درخواست گزار

 جلدی کیوں ہے،جہاں اتنی دیر گزر گئی وہاں 10روز اور انتظار کر لیں،چیف جسٹس کے ریمارکس

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 16 اکتوبر تک ملتوی کردی

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بجلی بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے)کے معاملہ پردائر 1090درخواستوں کی سماعت 16 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین سے دلائل طلب کر لئے۔ عدالت نے درخواستوںپراٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قراردیا کہ اس کیس میں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ 16 اکتوبر کو دلائل سن کر فیصلہ کریں گے،فریقین کیس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے اور کیس کے میرٹ پر ہونے کے حوالہ سے دلائل دیں، کیس میں مزید کوئی التوانہیں دیا جائے گا، اگر کیس درخواست گزار کی جانب سے وکیل پیش نہ ہوسکتا ہے تومتبادل وکیل کا انتظام کیا جائے۔16 اکتوبر کو ویڈیو لنک کی سہولت نہیں دی جائے گی،تمام فریقین کے وکلاء اسلام آباد آکر دلائل دیں، درخواست گزار اور مدعا علیحان صنعتکاراورکاروباری افراد ہیں اس لئے ان کے وکلاء کو اسلام آباد آنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ کوشش کریں گے کہ16اکتوبر کو کوئی اورکیس نہ لگائیں یا ہلکے پھلکے کیس ساتھ لگائیں۔ جبکہ دوران سماعت ایڈیشل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت درخواستوں کی حمایت کرتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیسکو، لیسکو، گیپکو اور میپکو کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کے فیصلے کے خلاف دائر 1090درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس علی باقر نجفی نے بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو غیر قراردیا تھا جس کے خلاف بجلی کی مختلف تقسیم کار کمپنیوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ درخواستوں میں مختلف فیکٹریوں اور صنعتی یونٹس کو فریق بنایا گیا ہے۔ دوران سماعت فیصل آبادا لیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو)کی جانب سے وکیل وقار امین شیخ 148کیسز میں پیش ہوئے، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو)کی جانب سے وکیل منورالاسلام 800کیسز میں پیش ہوئے، گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (گیپکو)کی جانب سے 177کیسز میں اورنگزیب مرزااور149کیسز میں سلمان منصور بطور وکیل پیش ہوئے، ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی (میپکو)کی طرف سے 29کیسز میں سابق گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ بطور وکیل پیش ہوئے، نیپرا کی جانب سے ایک دائر درخواست پر عمر اسلم خان بطور وکیل پیش ہوئے، اسلام آباد الیکٹر ک سپلائی کمپنی کی جانب سے فیصل بن خورشید چار کیسز میں پیش ہوئے جبکہ وفاق کی نمائندگی ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان نے کی۔ دوران سماعت خواجہ طارق اے رحیم نے لاہور سے ویڈیو لنک پر پیش ہوتے ہوئے بتایا کہ بعض مدعا علیہان کو گزشتہ روز نوٹس موصول ہوئے ہیں اور بعض کو نوٹسز موصول نہیں ہوئے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر درخواست کاروائی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو بڑھائیں اگر نہیں تو ہم وقت دے دیتے ہیں۔ خواجہ طارق اے رحیم نے کہا سلمان اکرم راجہ بحریہ ٹائون کی جانب سے تین کیسز میں پیش ہورہے ہیں اور انہیں بھی نوٹس نہیں ملا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا سلمان اکرم راجہ تو عدالت میں موجود تھے اوراسی دوران سلمان اکرام راجہ باہر سے کمرہ عدالت میں آگئے۔ چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیس سن کر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقراررکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کریں گے۔ دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ میں پہلی پیٹیشن لیسکو کی جانب سے 4مارچ 2023کو دائرہوئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 10دن اورسماعت نہیں ہو گی توکیاہوجائے گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے ساری فیول پرائس ایڈجسٹمنٹس ختم ہو گئی ہیں، کیس میں حکومت کے 40ارب روپے پھنسے ہوئے ہیں، 10روز کے بعد روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت پر کسی وکیل کو التوا نہیں دیں گے، اگر کوئی فریق تحریری معروضات جمع کرانا چاہے تو کروا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کافی پیچیدہ معاملہ ہے، لاہور ہائیکورٹ کے سنگل جج کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں، لاہور ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کیوں دائر نہیں کی گئی جبکہ انٹرا کورٹ اپیل بارے میرارواں برس8 جولائیکو دیا گیا فیصلہ بھی موجود ہے، اسے دیکھ لیں، اس حوالے سے اور بھی فیصلے موجود ہیں، کچھ درخواست گزار اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر بھی اعتراض اٹھا رہے ہیں۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ کیس کو جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ جلدی کیوں ہے،جہاں اتنی دیر گزر گئی وہاں 10روز اور انتظار کر لیں،  امید ہے آئندہ سماعت پر کوئی وکیل التوا نہیں مانگے گا، ہم مقدمہ ملتوی کرنے کی درخواست منظور بھی نہیں کریں گے۔دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا فریقین کے وکیل خواجہ طارق اے رحیم سے دلچسپ مکالمہ ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں امید ہے آئندہ سماعت پر آپ ویڈیو لنگ کے بجائے سپریم کورٹ اسلام آباد میں موجود ہونگے، ویسے بھی دونوں طرف کے فریقین بہت امیر لوگ ہیں، اس کیس میں صنعت کار اور بجلی بنانے والی کمپنیاں ہیں وہ اخراجات برداشت کر سکتے ہیں، انشااللہ آئندہ سماعت پر کیس ملتوی نہیں کیا جائے گا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے 40 ارب روپے کی وصولی میں مشکلات درپیش ہیں۔قبل ازیں، سماعت کے آغاز پر عدالت عظمی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی مہلت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آدھے گھنٹے میں کیس کی تیاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس نہیں ہے وہ خود دلائل دینا چاہتے ہیں لہذا عدالت کچھ مہلت دے دے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر تو آپ خود لکھ کر کہہ دیں کہ عامر رحمان نااہل ہے دلائل نہیں دے سکتے تو ٹھیک ہے لیکن ہم تو عامر رحمان کو نااہل کہنے کی گستاخی نہیں کر سکتے، میں تو سمجھتا ہوں کہ عامر رحمان ایک قابل وکیل ہیں اور کیس میں خود دلائل دے سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اتنے سارے وکلا موجود ہیں، کیس کو ساڑھے 11 بجے وقفے کے بعد سنیں گے، بجلی کی قیمتوں سے متعلق کیسز کا ڈھیر لگا ہے۔وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پرچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں پر کیسز کا ڈھیر ہے، 16 اکتوبر کو دلائل سن کر فیصلہ کریں گے اور اس روز ویڈیو لنک کی سہولت نہیں دی جائے گی، تمام فریقین اسلام آباد میں آکر دلائل دیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی مزید سماعت 16 اکتوبر تک ملتوی کردی۔اس سے قبل جب کیس اپنے نمبر پر پکارا گیا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلے دیگر کیسز نمٹا لیں اس کو بعد میں سنیں گے۔ عدالت نے دیگر 9کیسز 11بجے وقفہ سے قبل نمٹا دیئے اور وقفہ کے بعد بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے رواں سال 6فروی کو بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف بجلی ترسیل کرنے والی کمپنیوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔