صاف اورشفاف انتخابات کروانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جو آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کو قرارواقعی سزاملنی چاہیے، آئین کی خلاف وزری کاضرور نوٹس لیا جانا چاہیے،جسٹس اطہر من اللہ
ملک میں چیزیں بہتر ہورہی ہیں، آرڈر آف دی کورٹ کیا ہوتا ہے اس کے لئے 21ویں ترمیم کا فیصلہ پڑھیں،چیف جسٹس
عدالت پہلے ہی ملک میں انتخابات کروانے کے معاملہ کا نوٹس لے چکی ہے اور اسی بنیاد پر اس درخواست کو مزید چلانے کی ضرورت نہیں،وکیل درخواست گزار
کیس کا آرڈر آف دی کورٹ ہے توبتائیں، اس کیس میں مختلف ججز نے مختلف فیصلے دیئے تھے،چیف جسٹس کے ریمارکس
14مئی کو انتخابات کروانے کے حوالے سے کوئی آرڈر آف دی کورٹ موجود نہیں،وکیل فاروق ایچ نائیک
عدالت نے پورے ملک میں تمام صوبائی اورقومی اسمبلی کے انتخابات کرانے کے حوالے سے دائر درخواست غیر مئوثر ہونے اور واپس لینے کی بنیاد پر نمٹادی
اسلام آباد(ویب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نگران حکومت کے قیام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ صاف اورشفاف انتخابات کروانا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ صاف اورشفاف انتخابات الیکشن کمیشن نے کرانا ہیں تو پھر نگران حکومت کیوں بنائی جاتی ہے۔ چلیں خیر یہ دیکھنا پارلیمنٹ کا کا م ہے، ہم توتشریح ہی کرسکتے ہیں۔ملک میں چیزیں بہتر ہورہی ہیں، آرڈر آف دی کورٹ کیا ہوتا ہے اس کے لئے 21ویں ترمیم کا فیصلہ پڑھیں،یہ فیصلہ 800صفحات کا تھا تاہم آرڈر آف دی کورٹ ایک پیراگراف کا تھا جس پر بینچ کے تمام ججز کے دستخط تھے۔ آرڈر آف دی کورٹ وہ ہوتا ہے جس پر سب ججز کے دستخط موجود ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ جو آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کو قرارواقعی سزاملنی چاہیے، آئین کی خلاف وزری کاضرور نوٹس لیا جانا چاہیے۔ انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے ہر ایک کو فیئر موقع ملنا چاہیے۔ انٹرنمنٹ سینٹرز میں لوگ ہیں، گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے مسائل ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں ایک ہی دن انتخابات کروانے کے حوالہ سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران نگران حکومت کو غیر آئینی قراردے دیا تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہدایت پر فاروق نائیک نے اپنا بیان واپس لے لیا ۔عدالت نے پورے ملک میں تمام صوبائی اورقومی اسمبلی کے انتخابات کرانے کے حوالے سے دائر درخواست غیر مئوثر ہونے اور واپس لینے کی بنیاد پر نمٹادی۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کاشف خان کی جانب سے ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات کروانے کے حوالے سے دائر درخوااست پر سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار کی جانب سے شاہ خاور ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ عدالتی نوٹس پر پی پی پی رہنما سینیٹر فاروق حمیدنائیک، ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان اور ڈی جی الیکشن کمیشن پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر ہی درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدالت پہلے ہی ملک میں انتخابات کروانے کے معاملہ کا نوٹس لے چکی ہے اور اسی بنیاد پر اس درخواست کو مزید چلانے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہی توسارا جھگڑا ہے کہ وہ صحیح ہے کہ نہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس کیس میں کوئی آرڈرآف دی کورٹ پاس ہوا کہ نہیں۔ اس پرفاروق نائیک کا کہنا تھا کہ 14مئی کو انتخابات کروانے کے حوالے سے کوئی آرڈر آف دی کورٹ موجود نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہی توسمجھ نہیں آرہی کہ انتخابات کرنے کا کیا آرڈر تھا؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ وہی کیس ہے ناں جس میں بہت سے ججز نے اپنا، اپنا آرڈر لکھا۔ جسٹس اطہر من للہ کا کہنا تھا کہ ہر حکم میں کہا گیا تھا کہ 90روز کے اندر انتخابات ہوں اور درخواست گزار کو چاہیے تھا کہ جو حکم پر عمل نہیں کررہے ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فرض کریں اگر فریقین اتفاق کر لیں کہ چار سال انتخابات نہیں کروائے جائیں گے تو پھر کیا ہو گا۔اگر کوئی آئینی شق ہے تواس قانون کے خلاف کیسے حل نکال سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کل تو دوبارہ یہ معاملہ کھڑا ہو گیا تو پھر کیا ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارا کا م ہے کہ بچوں اور فیملی معاملات میں تصفیہ کروائیں تاہم جب آئین آجاتا ہے توہم کیا سیٹلمنٹ کروائیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نگران حکومت نظام کون لائے؟ اس پر فاروق نا ئیک کا کہنا تھا کہ ضیاء الحق 1985میں آئینی تجدیدکے آرڈر کے ذریعے نگران حکومت کا تصور لائے۔ اس پر چیف جسٹس کا دیگر وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب فاروق نائیک پر یہ طنز نہ کیجئے گا کہ انہوں نے ضیاء الحق کی بات کردی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضیاء الحق نے خود ہی آٹھویں ترمیم کی خلاف ورزی کی اور 1988کے انتخابات نگران حکومت کے بغیر کرائے گئے جبکہ اب تک دومرتبہ1988اور2002میں نگران حکومت کے بغیر انتخابات کرائے گئے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ غلام مصطفی جتوئی 1990میں پہلے نگران وزیر اعظم بنے تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضیاء الحق نے توخود اپنے ہی آئینی تجدید کے حکم کی محمد خان جونیجو کو ہٹا کر خلاف ورزی کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1990میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی اور 1993میں محمد نوازشریف کی حکومت ختم کردی گئی اور پھر وہ بحال ہو گئی تاہم بعد میں صدر اور وزیر اعظم دونوں کو جانا پڑا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1993میں بینظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بنیں اور سردار فاروق احمد خان لغاری نے 58-2(B)کا استعمال کرتے ہوئے ان کی حکومت ختم کردی۔ 1997میں محمد نوازشریف کی حکومت بنی اور وہ پھر 1999میں ختم کردی گئی۔ 2002میں نگران حکومت کے بغیر انتخابات ہوئے اور (ق)لیگ نے حکومت بنائی، 2008کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور مخدوم یوسف رضا گیلانی فارغ ہوئے تاہم حکومت پی پی پی کی ہی رہی، 2013کے انتخابات کے بعد محمد نوازشریف وزیر اعظم بنے اور2017میں ان کی حکومت بنی جس کے بعد (ن)لیگ کے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنے۔ چیف جسٹس کا 1985کے بعد ملک میں آنے والے تمام منتخب اور نگران وزرائے عظم کے حوالے سے مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یا توکہہ دیں کہ پارٹیوں کی رضا مندی سے آئین کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ جو آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کو قرارواقعی سزاملنی چاہیے، آئین کی خلاف وزری کاضرور نوٹس لیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ کون شخص ہے۔ اس پر شاہ خاور کا کہنا تھا کہ میں نے پوائنٹ آئوٹ نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس کا آرڈر آف دی کورٹ ہے توبتائیں، اس کیس میں مختلف ججز نے مختلف فیصلے دیئے تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرڈر آف دی کورٹ کی اہمیت ہوتی ہے، چار، پانچ آرڈر تھے لیکن آرڈر آف دی کورٹ کہاں ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نگران حکومتوں کے قیام کا مقصد کیا تھا۔ اس پر فاروق نائیک نے بتایا کہ نگران حکومت کا کام صاف اورشفاف انتخابات کرانا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر آئین کو پڑھیں تو صاف اورشفاف انتخابات کروانا توالیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ مناسب وقت پر چیزوں کا جائزہ لے کہ کب اسمبلیاں تحلیل ہو سکتی ہیں یا کب کوئی وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو مسائل حل کرنا چاہئیں نہ سپریم کورٹ کو۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی فیصلوں پر سوال نہیں اٹھا سکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی ٹوٹنے کے بعد 90روز انتخابات کرانا ضروری تھا۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ برانہ مانیں چوہدری صاحب! آپ کو وزیر اعلیٰ بنا رہے ہیں ایک ماہ رہ گیا ہے اوروفاق میں بھی اسی جماعت کی حکومت ہے اوراگر وزیر اعلیٰ اسمبلی توڑ دیتا ہے تو پھر وفاقی حکومت انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا شاہ خاور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیوں نہ اس قسم کی درخواست دائر کرنے پر بھاری ترین جرمانہ عائد کیا جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انٹرنمنٹ سینٹرز میں لوگ ہیں، گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے مسائل ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا ملک میں چیزیں بہتر ہورہی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے ہر ایک کو فیئر موقع ملنا چاہیے۔ چیف جسٹس کا فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اب بھی سینیٹ کے رکن ہیں اور امید ہے ان معاملات پر سینیٹ میں بحث ہو گی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ لیول پلینگ فیلڈ فراہم کریں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے سوال کیا کہ ان کی پریکٹس کتنی ہوگئی ہے اس پر فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ ان کی پریکٹس کو 50سال ہو گئے ہیںجبکہ چیف جسٹس نے شاہ خاور سے پوچھا کہ ان کی کتنی پریکٹس ہو گئی ہے توانہوں نے بتایا کہ انہیں پریکٹس کرتے 32سال گزر گئے ہیں جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے بتایا کہ ان کی 35سال پریکٹس ہو گئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہیں قانون کے شعبہ سے منسلک ہو ئے 40سال ہو گئے ہیں۔چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیوں وہ آج کل کسی اخبار میں نہیں لکھ رہے۔ عدالت نے غیر مئوثر ہونے اورواپس لینے کی بنیاد پر درخواست خارج کردی۔