اسرائیل کا غزہ پر دوبارہ سے قبضہ کرنے کا منصوبہ ،سکیورٹی اپنے ہاتھ میں رکھے گا

غزہ کی پٹی کی سکیورٹی غیر معینہ مدت تک اسرائیل اپنے ہاتھ میں رکھے گا نتن یاہو

تل ابیب (   ویب  نیوز)

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کہا ہے کہ حالیہ تنازع ختم ہو جانے پر غزہ کی پٹی کی سکیورٹی غیر معینہ مدت تک اسرائیل اپنے ہاتھ میں رکھے گا۔نتن یاہو نے امریکی ٹی وی چینل اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اسرائیل، غیر معینہ مدت تک، سکیورٹی کی مجموعی ذمہ داری اپنے پاس رکھے گا۔ جب ہمارے پاس یہ ذمہ داری نہیں ہوتی تو پھر حماس ابھرے گی  جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔نتن یاہو نے اس دوران جنگ بندی کے امکان کو بھی مسترد کیا۔ انھوں نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بغیر کسی قسم کی جنگ بندی نہیں ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ جہاں تک ٹکٹیکل معاملات ہیں، مختصر وقفے یعنی ایک گھنٹے تک، ہوتے رہیں گے اور ہم حالات دیکھ کر سامان کی ترسیل یا اپنے یرغمالیوں کو نکلنے کے لیے وفقہ لیں گے۔ بن یامین نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک یرغمالیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں کسی انفرادی یرغمالی کی رہائی اور امداد کی فراہمی کے لیے جنگ میں کچھ وقفے کا سوال ہے تو اسرائیل پہلے بھی ایسا کرتا رہا ہے اور اب بھی ایسا کرے گا۔ لیکن مکمل جنگ بندی نہیں ہوگی۔ان کے بقول جنگ بندی کے سوال پر امریکہ کے صدر جو بائیڈن خود کہہ چکے ہیں کہ مکمل جنگ بندی حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہو گی جس کو حماس اپنی فتح سمجھے گی۔اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ جنگ بندی اسرائیل کے یرغمال بنائے گئے شہریوں کو واپس لانے میں رکاوٹ بنے گی۔ حماس کے جرائم پیشہ افراد پر صرف عسکری کارروائی سے دبا ڈالا جا سکتا ہے۔بی بی سی  کے مطابق  اسرائیلی فوج نے 38 سال تک غزہ میں موجود رہنے کے بعد 2005 میں انخلا کیا تھا۔ نتن یاہو کی جانب سے اس اعلان کا واضح مفہوم بیان کرنا مشکل ہے۔اس وقت ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی قسم کا قبضہ ہو گا جس میں ذمہ داریوں کی نوعیت صرف دفاع اور امن و عامہ تک محدود ہو گی۔سکیورٹی ذمہ داری کا لفظ غرب اردن کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اوسلو معاہدے کے تحت، جو اسرائیل اور فلسطین میں پہلا معاہدہ تھا، یہ طے ہوا تھا کہ غرب اردن میں میونسپل کنٹرول فلسطین کے پاس جبکہ سکیورٹی ذمہ داریاں اسرائیل کے پاس رہیں گی۔یعنی اسرائیل اپنی مرضی سے قانون نافذ کرے گا تاہم روز مرہ امور جیسا کہ سکول چلانا یا دیگر کام فلسطینیوں کے ذمہ ہوں گے۔لیکن ایسا کرنے کے لیے کسی ایسی فلسطینی تنظیم کا ہونا ضروری ہے جو اسرائیل کے ساتھ کام کرنے پر تیار ہو۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بعد جو فلسطینی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا اس کے لیے مشکلات کھڑی ہوں گی اور اسے غدار گردانا جائے گا۔ایسا لگتا ہے کہ فی الحال اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ سے قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے۔