ہم انشاء اللہ!لاپتہ افراد کے مسئلہ کا حل دیں گے،اس کوسیاسی نہ بنائیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
پاکستان ہم سب کا ہے ملکر ہی چیزیں ٹھیک کرنا ہو گا،
ہم پارلیمنٹ کوقانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے،ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے،دوران سماعت ریمارکس
سماعت
اسلام آباد(ویب نیوز)
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم انشاء اللہ!لاپتہ افراد کے مسئلہ کا حل دیں گے،یہ مسئلہ حل ہو گا جب سب مل کر کریں گے،اس وقت حل ہو گا جب ہم سب اپنی ذمہ داری قبول کریںگے، اس کوسیاسی نہ بنائیں، اعتزازاحسن کی درخواست میں سیاست جھلک رہی ہے، کچھ لوگوں کا نام لکھا اورکچھ کا نہیں لکھا۔ یہ پاکستان سب کے لئے ہے، اتنی نفرتیں بڑھ گئی ہیں جب تک سب مل کر مشترکہ کوششیں نہیں کریں گے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پاکستان ہم سب کا ہے ملکر ہی چیزیں ٹھیک کرنا ہوگا، ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے سے نفرتیں کم نہیں ہوتی یہ بہت کر لیا، ذمہ داری سب کو لینی پڑے گی، ایک وزیر اپنے بل کی حفاظت نہیں کرسکتی، لاپتہ افراد کی حفاظت کیسے کریں گی؟ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص عہدے پرہوتا ہے تووہ اپنی ذمہ داری ادانہیں کرتا، اگر انسانی حقوق کی وزیر کہتی ہے کہ میرابل غائب ہو گیا توکیا یہ عجیب بات نہیں۔ہم پارلیمنٹ کوقانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے،ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ہم لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنا چاہتے ہیں، لاپتہ افراد میں کئی وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو جہاد پر چلے جاتے ہیں اوردیگر تنظیمیں جوائن کر لیتے ہیں یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا، یہ سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیئے۔آمنہ مسعود جنجوعہ کی شروع دن سے لاپتہ افراد کے مسئلہ کے ساتھ وابستگی ہے، انہوں نے بلاتفریق لاپتہ افراد کے لئے آواز بلندی کی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے منگل کے روز لاپتہ افرادکے کیسز کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس نے پیش ہو کر کہا کہ وہ ایمان زینب حاضر مزاری کے خلاف وزارت داخلہ کی جانب سے دائر درخواست واپس لینے کی استدعاکی۔ جبکہ درخواست گزارخوشدل خان نے کہا وہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوکردلائل دیںگے۔ لاپتہ افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار خوشدل خان ملک نے کہا کہ جب میں نے درخواست دائر کی تھی تومیں سروس آف پاکستان میں تھا اورمختلف عہدوں پر کام کیاہے، ریجنل ڈائریکٹر ہیومن رائٹس بلوچستان رہا ہوں،لاپتہ افراد کے معاملہ کا حل 1973کے آئین میں 1974میں ترمیم کرکے دیا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے کام کی بات کیجئے، کس گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اس پر خوشدل خان کا کہنا تھا کہ گریڈ21میں ریٹائرڈہوا ہوں۔خوشدل خان کا کہنا تھا کہ حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دیا جائے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟۔درخواست گزار نے دلائل میں کہا کہ جسٹس (ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت کو نوٹس کر کے پوچھے کہ 50سال سے لاپتہ افراد کے بارے قانون سازی کیوں نہیں کی؟۔چیف جسٹس نے خوشدل خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ گریڈ21کے افسر تھے ہمیں بتائیںہم کیا کریں، ہم نے کیس لگادیا اورآگے بڑھ چکے ہیں ، ہمیں بتائیں یہ اقدام کریں، ہمیں سمجھ آئے گی توکردیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا پارلیمان کو سپریم کورٹ ہدایت کرسکتی ہے کہ قانون سازی کریں۔ اس پر خوشدل خان کا کہنا تھا کہ کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کون سی شق ہے ہمیں بتادیں۔چیف جسٹس کا خوشدل خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمیں آپ کی کوئی خاص سمجھ نہیں آئی، ہرادارے کو اپنی حدودمیں رہنا چاہیے، ہم پارلیمان کوقانون سازی کے حوالہ سے ہدایت نہیں دے سکتے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے واضح کیا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی صرف انسانی حقو ق کے خلاف قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔چیف جسٹس کا خوشدل خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو میرے چیمبر میں آنے کی ضرورت نہیں، اپنی ذاتیات کے لئے اس فورم کو استعمال نہ کریں ، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قانون بن گیا ہے اس کو پڑھ کر درخواست دیں سماعت کے لئے مقرر ہوجائے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ تھا ہم نے کہا اس اہم مسئلہ کو اٹینڈ ہونا چاہیئے۔ چیف جسٹس نے خوشدل خان سے سوال کیا کہ کیاآپ وزیر بننا چاہتے ہیں۔ محمد علی مظہر نے خوشدل خان سے سوال کیا کہ کیا دوبارہ وزیر بننا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں، جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ سردار لطیف خان کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کئے گئے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا اور میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں، اعتزازاحسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا۔وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نقطہ اٹھایا گیا، عدالت نے سوال کیاکہ ہم سے کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں اپنی استدعا بتائیں۔ وکیل نے کہا کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کے حوالہ سے درخواست منظور کی جائے، لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کمیشن کب کا ہے تب کس کی حکومت تھی، شعیب شاہین نے بتایا کہ 2011 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران کمیشن بنا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اعتزازاحسن کیا اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرنا چاہتے ہیں۔شعیب شاہین نے بتایا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کتنے لوگ بازیاب ہوئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اعتزاز احسن خود پیپلزپارٹی حکومت میں وزیر بھی رہے جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ جب کمیشن بنا وہ شاید وزیر نہیں تھے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اعتزاز احسن کیا اس وقت بھی پیپلزپارٹی میں ہیں؟ شعیب شاہین نے بتایا کہ جی وہ ابھی پیپلزپارٹی میں ہیں۔شعیب شاہین نے شیخ رشید،فرخ حبیب، عثمان ڈار، صداقت عباسی ، محمد اعظم خان، صحافی عمران ریاض خان اور دیگر کی گمشدگیوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ سب لوگ خود ہمارے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟ کیا یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آ سکیں؟ آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے، جو شخص دھرنہ کیس میں نظرثانی لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں لگا سکتا، کل شیخ رشید کہہ دیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا؟ شیخ رشید خود کتنی بار وزیر رہ چکے؟ کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹیگری میں رکھیں گے؟۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر اس مسئلہ کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو عدالت متعلقہ فورم نہیں، اگر اعتزازاحسن عدالت آئے ہیں تو شیخ رشید بھی عدالت آسکتے ہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ فرخ حبیب کون ہیں، صداقت علی عباسی کون ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ان میں سے کوئی عدالت نہیں آیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیاآپ کی یہ رنجش ہے کہ یہ آپ کی پارٹی چھوڑ گئے ؟ عثمان ڈار کون ہیں، کیا ہم انہیں یہ کہیں کہ واپس پی ٹی آئی میں آ جائیں؟ اعظم خان کون ہیں، ہم سیاسی طور پر عدالت کواستعمال نہیں کرنے دیں گے۔ محمد خان بھٹی کون ہیں، آپ کا ان سے کیا تعلق ہے، کیا یہ لاپتہ ہیں۔ اس پر شعیب شاہین کا کہنا تھاکہ اب ان کو پیش کردیا گیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہناتھا کہ اگرآگئے ہیں تو پھر یہ درخواست غیر مئوثر ہو گئی ہے، یا تو خود آکر کہیں ہمیں اٹھایا گیا ہے،یا اعتزاز احسن کے سامنے اٹھایا گیا ۔جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ لاپتہ ہو کر واپس آگئے اور انہوں نے واپس آکر کوئی بیان نہیں دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کا نام بھی لکھاہے کیا آپ کے پاس ان کا نام لکھنے کی اتھارٹی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سنجیدگی سے لینا چاہتے ہیں اگر درخواست گزار سنجیدہ نہیںلینا چاہتے توہم نہیں سنیںگے، اگر اس کیس کو سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے، ایک سیاسی جماعت کے حوالہ سے با ت کی ہے، اپنے مقاصد کے لئے چیزوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔شعیب شاہین نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کا معاملہ بھی ہم نے درخواست میں اٹھایا ہے۔شعیب شاہین نے کہا کہ شیریں مزاری نے اس معاملے پر بل پیش کیا جو غائب ہوگیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس معاملے پر شیریں مزاری نے استعفی دیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص عہدے پرہوتا ہے تووہ اپنی ذمہ داری ادانہیں کرتا، اگر انسانی حقوق کی وزیر کہتی ہے کہ میرابل غائب ہو گیا توکیا یہ عجیب بات نہیں، بل کیا سینیٹ سے غائب ہوا تھا؟ چیئرمین سینیٹ کون ہے کس کے ووٹ سے بنے تھے؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شیریں مزاری پی ٹی آئی کی وزیر تھیں اور سنجرانی پی ٹی آئی کے ووٹوں سے چیئرمین بنے، یہ الزام لگارہے ہیں کہ انہوں نے پی ٹی آئی کا بل غائب کردیا، یہ سنگین الزام ہے، بل غائب ہونے کاسنگین الزام ہے، بل غائب ہونے کی کیا ذمہ داری سپریم کورٹ پر ہے، بل غائب کس نے کیا، چیئرمین سینیٹ نے کیا، گھر کا رکھوالا ہے وہی غائب کرسکتا ہے، سنجرانی کے خلاف سنگین الزام لگارہے ہیں ان کو پارٹی کیوں نہیں بنایا، یامذاق سمجھ رہے ہیں یاسنجیدہ لیں، اس بات کو آخر حد تک لے جائیں اورانہیں پارٹی بنائیں، یہ وہ وقت تھا جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی، بل مسترد ہوسکتا ہے ، غائب نہیںہوسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی مقاصد کے لئے کیس ہمارے پاس لائیں گے تویہ غلط بات ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ کیا یہ بل ریکارڈ سے غائب ہو گیا یا ریکارڈ پر آیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسنگ پرسن کیس سے مسنگ بل کا کیس بن گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بل کی کاپی ہمیں دکھادیں۔اس پر شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بل کی کاپی نہیں۔ اس پر چیف جسٹس کے سیکرٹری نے بل کی کاپی نکال کر چیف جسٹس کودی۔ چیف جسٹس کا شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بل قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر رکھا ہوا ہے، تھوڑی سی محنت کر لیا کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ بل تووزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے عمران ریاض کا ذکر بھی کیا، یہ کون ہے؟ کیا عمران ریاض اب بھی لاپتہ ہے؟، کیا عمران ریاض اثر و رسوخ والے نہیں؟ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ عمران ریاض صحافی ہیں اور اینکر بھی رہے وہ واپس آگئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران ریاض نے واپس آکر کہاکہ اانہیں کس نے اٹھایا،عمران ریاض نے خود کیا کہا، کیا عمران ریاض اثرورسوخ والے شخص نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمرہ عدالت میں بھی دوصحافی موجود ہیں، کیا مطیع اللہ جان اغوا نہیں ہوئے تھے؟کسی کی حکومت تھی،ان کاذکر کیوں نہیں کیا،اسد طور کی مارپیٹ ہوئی تھی ان کاذکر کیوں نہیں کیا، آپ مطیع اللہ جان اور اسد طور کا نام شامل کیوں نہیں کرتے، آپ ان لوگوں کا نام لے رہے ہیں جو اس بات پر کھڑے ہی نہیں کہ وہ اغوا ہوئے جبکہ مطیع اللہ جان اور اسد طور نے تو نہیں کہا کہ وہ شمالی علاقہ جات گئے یا ان کی گھر میں آکر پٹائی نہیں کی، کیوں پک اینڈ چوز کررہے ہیںکیوں مطیع اللہ جان اوراسد طور کے ساتھ نہیں آتے، ہر ظلم کے خلاف کھڑاہونا چاہیئے، صحافی براہ راست درخواست لائے اس وقت پی ٹی آئی نے درخواست کو چلنے نہیں دیا، آپ کے خیال میں صحافیوں پر اس وقت جو تشدد ہوا تھا اس پر آپ کی پارٹی کا کیا مئوقف ہے۔جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جب آپ کی حکومت نہیں اس وقت اس کی مذمت کررہے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے سنا نہیں کہ دونوں صحافی کسی پارٹی سے منسلک ہیں اورانہیں غیر جانبدارتصور کیا جاتا ہے، ہمارے بندے کو اٹھائیں غلط ہے دوسرے کو اٹھائیں صیح ہیچیف جسٹس کا کہنا تھا کیا اس وقت مطیع اللہ جان کو پروٹوکول دیا جارہا ہے۔شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ 14سال سے لاپتہ ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کہنا تھا کہ میںنے بطور بلوچستان ہائی کورٹ چیف جسٹس پانچ سال لاپتہ افراد کے کیسز ریگولر بنیادوںپر سنے، کچھ لوگ جہاد کے لئے گئے، کچھ لوگ اپنے دیگر کیسز کی وجہ سے اشتہاری ہو گئے ، کچھ جینوئن لاپتہ افرادکے کیسز بھی ہیں۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اسلام آباد انتظامیہ نے بڑی زیادتی کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الگ درخواست کردیتے تاکہ ہم کسی کونوٹس کریں توحقائق کا پتا توہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا آمنہ مسعود جنجوعہ نے بلاتفریق لاپتہ افراد کے لئے آواز بلندی کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کوئی فہرست لگائی کون کب سے لاپتہ ہے؟ آپ نے کہا وزیراعظم نے جو 50 لوگوں کے گم ہونے کی بات کی وہ غلط ہے، آپ تاریخوں کے ساتھ فہرست دیتے تو ہم دیکھ لیتے تب کس کی حکومت تھی، ہو سکتا ہے اس میں آپ کی حکومت بھی آجاتی۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کمیشن کا سربراہ کون ہے؟ شعیب شاہین نے بتایا کہ جسٹس (ر)جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ جاوید اقبال سے مطمئن ہیں یا تبدیل کرانا چاہتے ہیں۔ شعیب شاہین نے کہا کہ میں چاہتا ہوں ایک عالمی میعار کا نیا کمیشن بنے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کی حکومت نے جاوید اقبال کو تبدیل کیا؟۔شعیب شاہین نے بتایا کہ جاوید اقبال کو کسی حکومت نے تبدیل نہیں کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہنا تھا کہ کہاوت ہے کہ سچ آپ کوآزاد کردے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ذمہ داری نہیں لے سکتے؟ وکیل نے کہا کہ میں اس معاملے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا، کیس خارج کروا سکتا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس اب خارج نہیں کرنے دیں گے، ہم انشاء اللہ اس مسئلہ کا حل دیں گے، یہ پاکستان سب کے لئے ہے، اتنی نفرتیں بڑھ گئی ہیں جب تک سب مل کر مشترکہ کوششیں نہیں کریں گے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان ہم سب کا ہے ملکر ہی چیزیں ٹھیک کرنا ہوں گی، ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے سے نفرتیں کم نہیں ہوتی یہ بہت کر لیا، ذمہ داری سب کو لینی پڑے گی، ایک وزیر اپنے بل کی حفاظت نہیں کرسکتی، لاپتہ افراد کی حفاظت کیسے کریں گی؟پاکستان میں دنیا کی طرح مستعفیٰ ہونے کی روایت نہیںاگر کام نہیں کرسکتے تو مستعفیٰ ہوں اورکسی اورکوکام کرنے کا موقع دیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ بھی مسنگ ہو گئے اور بل بھی مسنگ ہو گیا، کیا یہ کیس لاپتہ افراد کا ہی ہے یا لاپتہ چیزیں بھی آ جائیں گی، بل بھی لاپتہ ہوگیا اور ووٹ بھی لاپتہ ہوگئے، آپ نے اسی وقت اپنا چیئرمین سینیٹ بھی بنوا لیا تھا۔شعیب شاہین نے کہا کہ ہمارا چیئرمین نہیں ہے جن کا ہے اللہ انہیں نصیب کرے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے پتا نہیں تھا میں صبح سے رات تک کام کرتا ہوں، ریفریشمنٹ کے بیرون ملک چھٹیوں پر گیا ہواتھااگر پتا ہوتا توسال کے پہلے دن کیس لگادیتے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جن کا دوسرا نقطہ نظرہوسکتا ہے ان کا بھی ملک ہے اور ہم سب کا بھی ملک ہے، ہم لوگوں کو ڈھونڈ کر نہیں نکلواسکتے، ہم بھی حکومت سے ہی کام کروائیں گے۔ چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی حکومت میں کوئی شخص لاپت ہوا کہ نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نگران حکومت کو صرف ان کے دور میں گم ہوئے لوگوں کا ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں، ہم لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنا چاہتے ہیں، لاپتہ افراد میں کئی وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو جہاد پر چلے جاتے ہیں اوردیگر تنظیمیں جوائن کر لیتے ہیں یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا، یہ سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیئے۔ آپ کو پتہ ہے لوگ قتل ہوئے ہیں، جج قتل ہوئے ہیں، آپ کو پتہ ہے دو عدالتوں کے چیف جسٹس رہنے والے نور محمد مسکان زئی کو قتل کیا گیا، انہیں کہاںپر قتل کیا گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا نورمحمد مسکان زئی کو اپنے گھر کے سامنے مسجد میں قتل کیا گیا جب وہ مسجد میںنماز کے بعد نوافل پڑھ رہے تھے اوران کے بہنوئی ان کے ساتھ تھے، کسی تنظیم نے نام لیا ہم نے قتل کیا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امن وامان ہونا چاہیئے اور میں توکہتا ہوں کہ گارڈ ساتھ ہونا ہی نہیں چاہیئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہماری بھی حدودوقیود ہیں، ہم کیا کچھ کرسکتے ہیں۔یہ مسئلہ حل ہو گا جب ہم سب مل کر کریں گے، یہ اس وقت حل ہو گا جب ہم اپنی ذمہ داری قبول کریں گے، اس کو سیاسی بات نہ بنائیں۔پیٹیشن میں سیاست جھلک رہی ہے، کچھ لوگوں کا ذکر کیا اورکچھ لوگوں کاذکر نہیں کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں، کل وہ بھی آئیں اورباتیںسنیں۔ہم ہرکسی کے تعاون سے مسئلہ کو حل کریں گے، پاکستان اندر سے مضبوط ہو گا توکوئی باہر سے ہمیں ہاتھ نہیں لگاسکے گا، ہم اس مسئلہ کو حل کریں گے، پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے۔چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کل آپ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ اس پر شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ میرے کاغذات نامزدگی مسترد کردئیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج تو ہم نے ناہلی کی مدت کے تعین کا معاملہ لارجر بینچ میں لگایا ہوا تھا ہمیں وقت کا خیال ہی نہیں رہا اس
لیئے اس کیس کی سماعت دوبارہ آج بدھ کو ساڑھے گیارہ بجے کریںگے۔ZS
#/S