سپریم کورٹ ، انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست خارج،درخواست گزار کو پانچ لاکھ روپے جرمانہ

ریاست یقینی بنائے کہ کورٹ مارشل ہوا شخص بریگیڈیئر کا رینک استعمال نہ کرے، عدالت کا حکمنامہ

یہ کوئی سازش تونہیں کہ ایک دن درخواست دائر کریں اوراگلے ون باہر چلے جائیں، ریاست ایسی چیزوںکو سنجیدہ نہیں لیتی، تحقیقات کریں

لگتا ہے علی خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے پبلسٹی اسٹنٹ کھیلا ہے

میڈیا آزاد ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹ پر مبنی خبر چلا تے جائیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس

چیف جسٹس کا دوران سماعت پی ٹی آئی رہنماء شوکت محمود بسرا کی جانب سے پیش ہوکربات کرنے پر شدید برہمی کااظہار

ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کرنے اورکاروائی کے لئے معاملہ بارکونسل کو بھیجنے کا انتباہ

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبینہ دھاندلی پر8فروری2024کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کوکالعدم قرار دینے کی درخواست خارج کرتے ہوئے درخواست گزاربریگیڈیئر(ر)علی خان کو عدم پیشی پرپانچ لاکھ روپے جرمانہ کر دیا۔ عدالت نے اپنے حکمنامہ میں کہا ہے کہ یہ کوئی سازش تونہیںکہ ایک دن درخواست دائر کریں اوراگلے ون باہر چلے جائیں، ریاست ایسی چیزوںکو سنجیدہ نہیں لیتی، تحقیقات کریں۔درخواست گزار پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کررہا ہے اورآئینی اداروں کوکمزور کررہا ہے۔ ریاست یقینی بنائے کہ کورٹ مارشل ہوا شخص بریگیڈیئر کا رینک استعمال نہ کرے۔ درخواست گزار نے درخواست میں کورٹ مارشل کا نہیں بتایا اور رینک کا غلط استعمال کیا۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے لگتا ہے علی خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے پبلسٹی اسٹنٹ کھیلا ہے۔ علی خان نے13فروری کوایک لاکھ 62ہزار756روپے میں ٹکٹ خریدااوراسلام آباد سے دوحہ گئے اور17فروری کو بحرین کی فلائٹ پکڑی، یہ عجیب بات نہیں کہ درخواست دائر کی اوراگلے ہی دن باہرنکل گئے۔ پاکستان میں سارے اداروں کو تباہ کردیں، ہم نے الیکشن کا معاملہ ہونے کی وجہ سے سماعت کے لئے مقرر کردیااوردرخواست گزار باہر نکل گیا، یہ 100عدالت کا غلط استعمال ہے۔ ہفتے کے روز جھوٹی خبر چل گئی میری پانچ ججز سے ملاقات ہوئی، اس روز کسی جج سے میری ملاقات نہیں ہوئی، میڈیا آزاد ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹ پر مبنی خبر چلا تے جائیں، رجسٹرار سے فون کر کے پوچھ لیں، میرے ساتھی ججز پوچھ رہے تھے کہ کیا فیصلہ ہوا، ایسی بات لکھ دوریٹنگ بڑھ جائے گی، جینوئن صحافی بیروزگار ہورہے ہیں۔صرف سچ بولیں اگر غلطی ہو گئی ہے تومعذرت کر لیں، میڈیا بھی اپنے صحافی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا، ریٹنگ بڑھ گئی، ہر چیز پر ضمیر بک گیا۔ جبکہ چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت محمود بسرا کی جانب سے پیش ہوکربات کرنے پر شدید برہمی کااظہار کیا اوران کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کرنے اوران خلاف کاروائی کے لئے معاملہ بارکونسل کونسل کو بھیجنے کا انتباہ بھی کیا۔چیف جسٹس نے شوکت بسرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تک آواز نہیں پہنچی ، تشریف رکھیئے، تشریف رکھیئے پلیز۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے برگیڈیئر (ر) علی خان کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں اٹارنی جنرل کی وساطت سے وفاق پاکستان اوردیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ عدالت کی جانب سے طلب کرنے کے باوجود درخواست گزار عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان پیش ہوئے۔سپریم کورٹ نے 19 فروری کو بریگیڈیئر ریٹائرڈ علی خان کو متعلقہ ایس ایچ او، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام اوروزارت دفاع کے ذریعے نوٹس جاری کیا تھا تاہم درخواست گزار پیش نہ ہوئے۔سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ علی خان کے گھر پولیس بھی گئی وزارت دفاع کے ذریعے نوٹس بھی بھیجا، علی خان گھر میں نہیں ہیں اور نوٹس ان کے گیٹ پر چسپاں کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ علی خان کون ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ سابق بریگیڈیئر ہیں جن کا 2012 میں کورٹ مارشل ہوا تھا، پانچ سال قید بامشقت کی سزا ہوئی اور بعد ازاں ایک سال سزا کم کردی گئی اورچارسال بعد رہا ہو گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جس وقت کورٹ مارشل ہوااس وقت آرمی چیف کون تھے۔ اس پر بتایا گیا جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف تھے۔ دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما شوکت محمود بسرا روسٹرم پر آئے اور بات کرنا شروع کی کہ میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے، میںبہاولنگر سے نومنتخب ایم این اے ہوں۔اس پرچیف جسٹس نے شوکت بسراکومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تشریف رکھیں، آپ تشریف رکھیں۔ اس پر شوکت بسرا کا کہنا تھا کہ میں ہائی کورٹ کا وکیل بھی ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مبارک ہو! تشریف رکھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا شوکت بسرا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کیس میں درخواست گزار اور ہیں ۔ چیف جسٹس نے شوکت بسرا پر انتہائی اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ تک آواز نہیں پہنچی ، تشریف رکھیئے، تشریف رکھیئے پلیز۔ اس کے بعد شوکت بسرا سیٹ پر جاکربیٹھ گئے۔ ایڈیشنل اتارنی جنرل نے بتایا کہ برگیڈیئر (ر)علی خان کا 2012میں کورٹ مارشل ہوا تھا ، پانچ سال سزاہوئی تھی اوران کے رینکس واپس لے لئے گئے تھے اوراپنا رینک نہیں لکھ سکتے۔  چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ 19 فروری کو فکسیشن برانچ سپریم کورٹ کوایک ای میل آئی ہے اور یہ ای میل ویری فیکشن برانچ کو علی خان کی جانب سے بھیجی گئی جس میں علی خان نے بتایا کہ میں بیرون ملک ہوں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 12فروری کو علی خان نے درخواست دی کہ عام انتخابا ت کو کالعدم قراردے کر جوڈیشل نگرانی میں دوبارہ عام انتخابات کروائے جائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ علی خان نے ای میل میں لکھا کہ میں عدالت سے معذرت چاہتا ہوں اور معافی چاہتا ہوں، بیرون ملک ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار ملک میں ہے ہی نہیں ار رقطر چلے گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ علی خان نے13فروری کوایک لاکھ 62ہزار756روپے میں ٹکٹ خریدااوراسلام آباد سے دوحہ گئے اور17فروری کو بحرین کی فلائٹ پکڑی، یہ عجیب بات نہیں کہ درخواست دائر کی اوراگلے ہی دن باہرنکل گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ درخواست دائر کی اوردوسرے دن میڈیا میں تشہیر حاصل کرنے کے بعد یکطرفہ ٹکٹ کروا کرباہر نکل گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس ای میل کے بارے ہماری برانچ نے بھی کنفرمیشن کی کہ وہی شخص ہے، درخواست گزار نے ای میل میں لکھا ہے کہ ملک سے باہر ہوں اور درخواست گزار نے ای میل میں درخواست واپس لینے کی استدعا کی ہے، علی خان نے لکھا ہے کہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوسکتا جبکہ ای میل میں بورڈنگ پاس، ٹکٹ اور بحرین جانے کے تمام سفری دستاویزات لگائے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ دستاویزات کے مطابق درخواست گزار دوحہ سے کنکٹنگ فلائیٹ لیکر بحرین گیا، عجیب آدمی ہیں سستا ہونے کے باعث لوگ ریٹرن ٹکٹ لیتے ہیں انھوں نے ون وے ٹکٹ لیا، لگتا ہے علی خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے پبلسٹی اسٹنٹ کھیلا ہے۔اس موقع پر ایک مرتبہ پھر شوکت بسرا نے بات کرنے کی کوشش کی جج صاحب!۔ اس پر چیف جسٹس نے شوکت بسرا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے پھر تقریر شروع کردی، آپ  سپریم کورٹ کے وکیل نہیں اور اپنا کیس ہو تو کالے کوٹ میں نہیں آئیے گا، ہم تقریر کرنے کے لئے عدالتی فورم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،پلیز بیٹھ جائیں یہ تقریر کا فورم نہیں، میڈیا سے باہر جاکربات کریں،پاکستان میں اخلاق ختم ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس نے شوکت بسرا سے سوال کیا کہ اس کیس سے ان کا کوئی تعلق ہے ، ہاں یاناں میں جواب دیں۔ اس پر شوکت بسرا کا کہنا تھا کہ تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ بیٹھ جائیں اور آئندہ ایسا کیا توان کا کیس بارکونسل کو انضطاطی کاروائی کے لئے بھیج دیں گے اورتوہین عدالت کا نوٹس بھی دیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سارے اداروں کو تباہ کردیں، ہم نے الیکشن کا معاملہ ہونے کی وجہ سے سماعت کے لئے مقرر کردیااوردرخواست گزار باہر نکل گیا، یہ 100عدالت کا غلط استعمال ہے، پاکستان کامذاق بنایا گیا ہے، پتا نہیں دوسرے صاحب آرہے ہیں یہ تو سازش لگ رہی ہے، دوسرے صاحب تقریر کرنے آگئے، دوسرے کوجھوٹ کے ساتھ دبا دو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہفتے کے روز جھوٹی خبر چل گئی میری پانچ ججز سے ملاقات ہوئی، اس روز کسی جج سے میری ملاقات نہیں ہوئی، میڈیا آزاد ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹ پر مبنی خبر چلا تے جائیں، رجسٹرار سے فون کر کے پوچھ لیں، میرے ساتھی ججز پوچھ رہے تھے کہ کیا فیصلہ ہوا، ایسی بات لکھ دوریٹنگ بڑھ جائے گی، جینوئن صحافی بیروزگار ہورہے ہیں، کم ازکم بنیادی فیکٹس تودیں، میڈیا پر خبر نہیں چلائیں گے، صاحب درخواست دائر کر کے بیرون ملک چلے گئے، ون وے ٹکٹ لے کر چلے گئے، کورٹ مارشل ہیں، ہم ہرادارے کااحترام کرتے ہیں، میڈیا ، عدلیہ سمیت تمام اداروں پر چیک رکھتا ہے،صرف سچ بولیں اگر غلطی ہو گئی ہے تومعذرت کر لیں، میڈیا بھی اپنے صحافی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا، ریٹنگ بڑھ گئی، ہر چیز پر ضمیر بک گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ مین میڈیا پر یہ خبر چل رہی تھی، مجھے خبریں آرہی تھیں اورمیں چیف جسٹس صاحب کو فون کرنا چاہ رہا تھاتاہم میں نے کہا خبریں آگئیں رہنے دو۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایسے ججز کے حوالہ سے بھی خبردی گئی کہ وہ میٹنگ میں جو ہفتہ کے روز لاہور تھے۔چیف جسٹس کا ایک مرتبہ پھر شوکت بسرا کی جانب مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وکیل دوسرے کیس میں مداخلت نہیں کرسکتا جس میں وہ پارٹی نہیں، یہ کوڈ آف کنڈکٹ ہے،کیا بارکونسل کو معاملہ بھجوادیں، میڈیا کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں موجود صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر محمد شہزادشوکت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ روسٹرم پر آئیں اور بتائیں کہ شوکت بسرا کا کیا کریں۔ شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ ان کو اپنی درخواست دائر کرنی چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دنیا میں وکالت معزز ترین پیشہ ہے، دنیا میں میدیکل کے بعد سے زیادہ مشکل سے داخلہ وکالت میںملتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر آپ 10جھوٹی خبریں چلادیں گے تو لوگ میڈیا پر اعتبار کرنا چھوڑ دیں گے، قلیل مدتی فائدہ ہوتا ہے تاہم طویل المدتی نقصان ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ہم ملک میں تمام اداروں کو تباہ کررہے ہیں۔ شہزادشوکت کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ جتنی اوپن آج ہے پہلے کبھی نہ تھی جس کو میں سراہتا ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا میڈیا اسی نمایاں انداز میں تردید چلائے گا جس انداز سے خبر چلائی تھی۔ کیا درخواست گزار پاکستانی نہیں ہیں، آکر درخواست چلائیں،کیا پاکستان کے دشمن کہیں گے کہ وہ برگیڈیئر نہیں لکھ سکتے۔ چیف جسٹس کا ایک مرتبہ پھر شوکت بسرا کی جانب مخاطب ہوئے کہا کہ اس شخص نے ایک مرتبہ بھی معذرت نہیں کی،برابھلا کہو، چیخو اورچلائو بس یہی سب کچھ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ درخواست گزارعلی خان نے ای میل میں صرف یہ لکھا ہے کہ میں نے کسی ٹی وی چینل سے بات نہیں کی تھی اور نہ ہی کسی صحافی کو درخواست کی کاپی دی، صرف ایک رپورٹررنے میری شناخت پوچھی تھی، ، "ڈان”ٹی وی کے رپورٹر سے بات ہوئی ۔چیف جسٹس نے شہزاد شوکت کو درخواست کی فائل دکھائی اور کہا کیا یہ اس طرح فائل ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا درخواست گزار کورٹ مارشل کے بعد پینشن وصول کررہے ہیں۔ اس پر ایڈیشنل اتارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے بتایا کہ نہیں کررہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزارنے ایک سیاسی جماعت کاذکر کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کا ہر قیمت قیمتی ہے، کل الزام لگے گا کہ اتنے کیسز زیر التوا ہیں۔ چیف جسٹس نے شہزادشوکت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی خاطر شوکت بسرا کو چھوڑ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے سماعت کاحکم لکھواتے ہوئے کہا کہ 19فروری کو حکم جاری کیا تھا تاہم درخواست گزارموجود نہیں۔ درخواست گزار کا انسداددہشت گردی ایکٹ1997کے تحت کالعدم قراردی گئی تنظیم سے تعلق کی وجہ سے کورٹ مارشل کیا گیا۔ وزارت دفاع کا نمائندہ 20فروری کو درخواست گزار کے گھر نوٹس دینے گیا جو مس آمنہ سہیل نے وصول کیا اور کہا کہ وہ فیملی ممبر ہیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد اور ایس ایچ اوکے زریعہ بھی نوٹس بھجوائے گئے۔ ایس ایچ اوکی رپورٹ کہتی ہے کہ کوئی باہر نہیں آیا اورنوٹس دروازے پر چسپاں کیا جس کی تصویر بھی عدالت کو فراہم کی گئی۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کی رپورٹ بھی موصول ہوئی۔ فکسیشن برانچ کو 19فروری کو ای میل موصول ہوئی جس میں درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی اورکہا کہ وہ ذاتی طور پر پیش نہ ہونے پر معذرت خواہ ہیں۔ درخواست گزار نے کہا کہ وہ درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ 17فروری کو بیرون ملک جانے کی پاسپورٹ کی کاپی، بورڈنگ پاس اور ای ٹکٹ کی کاپی بھی بھجوائی گئی ہے۔ ای ٹکٹ ایک لاکھ 62ہزار756روپے میں اسلام آباد سے خریداگیا اور پھراچانک اسلام آباد سے براستہ دوحہ ، قطر اور پھربحرین چلے گئے۔ باہر جانے کی وجہ ای میں نہیں بتائی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ درخواست گزار خود کو برگیڈیر ظاہر نہیںکرسکتا کیونکہ 2012میں انہیں پاکستان آرمی نے بغاوت، بغاوت پر اکسانے اور نافرمانی کے جرم پر کورٹ مارشل کیا اور پانچ سال قید بامشقت کی سزادی جس میں بعد ازاں ایک سال کی کمی کردی گئی اور وہ چارسال بعد رہا ہو گئے۔ درخواست گزارسے پینشن، رینک اورگریجوایٹی واپس لے لئے گئے۔ درخواست گزار نے درخواست میں کورٹ مارشل کا نہیں بتایا اور رینک کا غلط استعمال کیا۔ درخواست گزار نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں تشہیر حاصل کی اوراگلے ہی روز بیرون ملک روانہ ہو گئے اورواپسی کی ٹکٹ بھی نہیں کروائی۔ درخواست گزار پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کررہا ہے اورآئینی اداروں کو انڈرمائن کررہا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار شہزادشوکت سے استفسار کیا کہ انہوں نے مثالی جرمانہ عائد کرنے کی بات کی ہے یہ جرمانہ کتنا ہونا چاہیئے۔ اس پر شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ 10لاکھ روپے۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزارنے نہ صرف اداروں سالمیت کو نقصان پہنچایا بلکہ حقیقی درخواست گزاروں کا وقت بھی ضائع کیا۔ چیف جسٹس نے شہزادشوکت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شوکت بسرا کو بتادیں کہ اگر ان صاحب نے باہر جاکراس کیس کے حوالہ سے بات کی تو پھر ان کا کچھ کریں گے،کیونکہ آپ نے ان کی سفارش کی ہے۔ اس پر شہزادشوکت کا کہنا تھا کہ نہیں بات کریں گے وہ شوکت بسزا کوسمجھادیں گے۔ چیف جسٹس کا حکم میں مزید کہنا تھا کہ اگراداروں کو تباہ کردیں گے توپھر جنگل کاقانون لاگو ہو گا۔ یہ کوئی سازش تونہیںکہ ایک دن درخواست دائر کریں اوراگلے ون باہر چلے جائیں، ریاست ایسی چیزوںکو سنجیدہ نہیں لیتی، تحقیقات کریں۔ ملک اداروں کو تباہ کرنے سے تباہ ہوتا ہے، پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ اور دیگر دو، تین ادارے ہیں۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ حکومت پاکستان ایڈوائس کرے گی کہ درخواست گزار برگیڈیئر کارینک استعمال نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا کورٹ مارشل ہوا ہے۔ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔ ZS

#/S