الیکشن کالعدم قرار دینے کا کیس: چیف جسٹس کا درخواست گزار کو پیش کرنے کا حکم

درخواست گزار نے درخواست دائرکرتے ہی خود میڈیا پر جاری کر دی ، اس طرح سے سپریم کورٹ کا مذاق نہیں بنایا جا سکتا

درخواست گزار کو کسی بھی طرح پیش کریں، یہ کیس چلائیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد( ویب  نیوز)

ملک میں 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کو کالعدم قرارینے کے لئے برگیڈیئر (ر)علی خان کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ صرف تشہیر کے لئے درخواستیں دائر کرتے ہیں، درخواست گزار نے درخواست دائرکرتے ہی خود میڈیا پر جاری کر دی،دنیا کودکھا دیا، اس طرح سے سپریم کورٹ کا مذاق نہیں بنایا جا سکتا۔ درخواست گزار کو کسی بھی طرح پیش کریں، یہ کیس چلائیں گے، یہ صاحب خود تو لکھ نہیں سکتے، نہ اس کا وکیل ہے، نہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ہے، یہ ایسے نہیں چلے گا۔ دنیا میں درخواستیں دائر ہوتی ہیں لیکن وہ میڈیا کو جاری نہیں ہوتیں،ہم اس کیس کو سنیں گے۔جبکہ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ عام طور پر درخواست گزار درخواست واپس لے سکتا ہے تاہم اگر عدالت سمجھے کہ درخواست گزار تشہیر حاصل کرنے کے لئے ایسا کررہا ہے توایسا کرنا عدالتی کے پراسیس کے غلط استعمال کے مترادف ہے، ہم ایسا نہیںکرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم کوئی حکم جاری کرنے سے قبل ایک اورنوٹس جاری کررہے ہیں تاکہ درخواست گزارآئندہ سماعت پر پیش ہوں۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ عام سروس اور علاقہ کے ایس ایچ اوکے زریعہ بھی عدالتی نوٹس کی سروس کی جائے۔عدالت نے اٹارنی جنر ل آفس کو ہدایت کی ہے کہ چونکہ درخواست گزار نے لکھا ہے کہ وہ ریٹائرڈ برگیڈیئر ہے اس لئے وزارت دفاع کے زریعہ بھی درخواست گزارکو نوٹس بھجوایا جائے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر تین رکنی بینچ نے برگیڈیئر(ر)علی خان کی جانب سے 8فروری 2024کو ملک میں ہونے والے عام کو جمہوری روایات کی سریح خلاف ورزیوں کی بنیاد پر کالعدم قراردینے کی درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار نے ذاتی حیثیت میں پیش کردلائل دینا تھے تاہم وہ پیش نہ ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے درخواست گزار بریگیڈیئر( ریٹائرڈ) محمد علی سے متعلق پوچھا تو جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا درخواست گزار نے 13 فروری کوپٹیشن واپس لینے کی استدعا کر رکھی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزارکون ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیش ہوکربتایا کہ درخواست گزارنے درخواست واپس لینے کی استدعا کی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے 13فروری کو ہی درخواست واپس لینے کی استدعا کردی تھی۔ عدالتی عملے نے بتایا کہ درخواست گزارکوسروس نہیں ہوئی، درخواست گزار سے بذریعہ فون اور ایڈریس پر رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ممکن نہ ہوسکا، درخواست گزار اپنے فلیٹ پر موجود نہیں تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کس تاریخ کی درخواست ہے، یہ صرف تشہیر کے لئے درخواستیں دائر کرتے ہیں، درخواست گزار نے درخواست دائرکرتے ہی خود میڈیا پر جاری کر دی،دنیا کودکھا دیا، کیا پتا درخواست گزار نے خود درخواست فائل کی بھی تھی یا نہیں، کیا پتا بعد میں آکر درخواست گزار کہہ دے کہ میں نے واپس نہیں لی، اس طرح سے سپریم کورٹ کا مذاق نہیں بنایا جا سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کو کسی بھی طرح پیش کریں، یہ کیس چلائیں گے، یہ صاحب خود تو لکھ لکھ نہیں سکتے، نہ اس کا وکیل ہے، نہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ہے، یہ ایسے نہیں چلے گا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے درخواست ٹیلی ویژن کے لیے دائرہوئی تھی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دنیا میں درخواستیں دائر ہوتی ہیں لیکن وہ میڈیا کو جاری نہیں ہوتیں،ہم اس کیس کو سنیں گے، رابطہ رکے کہیں کہ سپریم کورٹ سے فون ہے، نہ پتا کہ انہوںنے دائر کی ہے اور نہ پتا کہ انہوں نے واپس لی ہے، علاقہ ایس ایچ اوکوبولیں سرورکرکے آئیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس کیس کودوبارہ سنیں گے تاہم جب کاز لسٹ میں شامل تمام کیسز ختم ہو گئے تودرخواست گزار کے نہ پہنچنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کا حکمنامہ لکھواتے ہوئے قراردیا کہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت براہ راست درخواست 12فروری کو سپریم کورٹ میں دائر کی گئی، درخواست دائر ہونے سے قبل الیکٹرانک میڈیا کو جاری کی اور اخباروں میں بھی بھرپورتشہیر ہوئی،رجسٹرارآفس نے درخواست پر متعدد اعتراضات عائد کئے تھے تاہم الیکشن کے حوالہ سے اہم معاملہ ہونے کی وجہ سے ہم نے کیس سننے کا فیصلہ کیا۔ حکمنامہ میں کہا گیا کہ آئینی درخواست دائر کرنے اور زیادہ سے زیادہ تشہیر حاصل کرنے کے بعد درخواست دائر کی گئی کہ درخواست گزار کیس واپس لینا چاہتا ہے اور مزید کیس نہیں چلانا چاہتا۔ آج کی سماعت کے حوالہ سے درخواست گزار کو نوٹس جاری کیاگیا تھا، بتایا گیا کہ درخواست کے گھر گیا توجواب نہ ملا، موبائل پر بھی کوئی جواب نہ ملا، ہم نے معاملہ کو التوامیں رکھا اورآفس سے کہا کہ رابطہ کریں تاہم کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت بدھ(21)فروری تک ملتوی کردی۔ZS