چینی، موبائل فون، سیمنٹ، سریا ، تانبہ، کوئلہ، کاغذ، ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات، گاڑیاں، جائیداد مہنگی
سولر پینل، سولر پنکھے، الیکٹرک موٹر سائیکلیں سستی
اسلا م آباد( ویب نیوز)
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کردیا ہے، جس کے مطابق چینی، موبائل فون، سیمنٹ، سریا ، تانبہ، کوئلہ، کاغذ، ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات، گاڑیاں اور جائیداد مہنگی، جبکہ سولر پینل، سولر پنکھے، الیکٹرک موٹر سائیکلیں سستی کردی گئی ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات پر لاگو سیلز ٹیکس کے ریٹ کو 15 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردینے کی تجویز ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکس بنیادی طور پر ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مہنگی اور برانڈڈ مصنوعات پر لاگو ہوگا، یہ ٹیکس اس طبقے پر لاگو کیا جارہا ہے جو یہ مہنگی اشیا خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے، اس سے عام شہری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔شیشے کی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی میں چھوٹ (سبسڈی) ختم کرنے کی تجویز بھی ہے۔موبائل فونز پر 18 فیصد اسٹینڈرڈ ریٹ پر ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ اسی طرح تانبے، کوئلے، اور کاغذ اور پلاسٹک کے اسکریپ وغیرہ پر سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ کا اطلاق ہوگا،وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے بجٹ 2024 کی تقریر میں کہا ہے کہ جعلی سگریٹ بیچنے والے ریٹیلرز پر سخت سزاوں کا اطلاق ہوگا۔انہوں نے کہ جعلی سیگریٹ بیچنے کی سزا میں ان کی دکان کو سیل کرنے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ کے مطابق اس وقت سینٹ پر 2 روپے فی کلو ایف ای ڈی عائد ہے، تجویز ہے کہ اس کو ب ڑھا کر 3 روپے فی کلو کردیا جائے۔انہوں نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ میں استحکام لانے اور speculation کو روکنے کے لیے نئے پلاٹوں، رہائشی اور کمرشل پراپرٹی پر 5 فیصد ایف ای ڈی عائد کرنے کی تجویز ہے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ بجٹ میں تجویز ہے کہ آئرن اور اسٹیل اسیکریپ کو سیلز ٹیکس سے چھوٹ دے دی جائے گی، دیکھنے میں آیا ہے کہ رجسٹرڈ افراد مارکیٹ سے بغیر سیلز ٹیکس چارج کئے سکرییپ خریدتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس رحجان کے خاتمے کے لیے تجویز ہے کہ آئرن اور اسٹیل اسکریپ کو سیلز ٹیکس کی چھوٹ دے کر جعلی انوائسز کے رحجان کو ختم کیا جائے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں سولر پینل انڈسٹری کے فروغ کیلئے سولر پینلز، انورٹرز اور بیٹریوں کے خام مال اور پرزہ جات کی درآمد پر رعایت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وزیر خزانہ کے مطابق حکومت کی جانب سے برآمد کرنے اور مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے سولر پینلز تیار کرنے کے لئے پلانٹ ، مشینری اور اس کے ساتھ منسلک آلات اور سولر پینلز، انورٹرز (Inverters) اور بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال اور پرزہ جات کی درآمد پر رعایتیں دی جارہی ہیں۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ درآمد شدہ سولر پینلز پر انحصار کم کیا جاسکے اور قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ہائیبرڈ اور عام گاڑیوں کے درمیان قیمتوں میں بہت زیادہ فرق کی وجہ سے ہائیبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں 2013 میں رعایت دی گئی تھی۔وزیر خزانہ کے مطابق اس وقت دونوں قسم کی گاڑیوں کی قیمتوں کے درمیان فرق کم ہو چکا ہے اور مقامی طور پر ہائیبرڈ گاڑیوں کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ اب اس لیے مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے یہ رعایت اب واپس لی جا رہی ہے۔وزیر خزانہ کی تقریر کے مطابق بجٹ میں گاڑیوں کی خریداری اور رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس انجن کپیسٹی کے بجائے گاڑی کی قیمت کی بنیاد پر لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ قانون کے تحت دو ہزار سی سی تک کی گاڑیوں کی خریداری اور رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی انجن کپیسٹی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔وزیر خزانہ کے مطابق چونکہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہو چکا ہے اس لیے تجویز دی گئی ہے کہ تمام موٹر گاڑیوں کے لیے ٹیکس وصولی انجن کپیسٹی کے بجائے گاڑیوں کی قیمت کے تناسب پر کی جائے۔حکومت نے بجٹ میں پٹرول اور ڈیزل کی خریداری پر عوام سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی ہے، جس کے تحت وفاقی حکومت اگلے مالی سال میں ڈیزل اور پٹرول پر اسی روپے تک پٹرولیم لیوی وصول کرے گی۔مٹی کے تیل پر پٹرولیم لیوی کی شرح موجودہ پچاس روپے فی لیٹر رہے گی جبکہ لائٹ ڈیزل آئل پر اس کی شرح 50 سے 75 روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ہائی آکٹین پر اس کی شرح پچاس روپے سے 75 روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح ای-10 گیسولین پر اس کی شرح پچاس روپے سے 75 روپے کرنے کی تجویز ہے۔پاکستان میں پیدا ہونے والی ایل پی جی پر پٹرولیم لیوی کی شرح 30000 روپے فی میٹرک ٹن کی موجودہ شرح پر برقرار رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔فنانس بل کے مطابق حکومت نے چینی مینوفیکچررز کیلئے 15 روپے ایف ای ڈی لاگو کرنے کی تجویز دی گئی ہے، یعنی چینی بھی مہنگی کردی گئی ہے۔اس کے علاوہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی درآمد پر دی گئی رعایت ختم کردی گئی ہے، گھریلو استعمال کے اشیا کی درآمد پر دی گئی چھوٹ کا جائزہ فنانس بل کا حصہ ہے۔۔