منی بجٹ لائے جانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، ایف بی آر
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بینکنگ کمپنیز (ترمیمی) بل 2024 کو متفقہ طور پر منظور
اسلام آباد( ویب نیوز)
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے کہا ہے کہ منی بجٹ لائے جانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے ممبر ایف بی آر آئی آر پالیسی ڈاکٹر حامد عتیق سرور نے کہاکہ منی بجٹ نہیں لایا جارہا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا اجلاس بدھ کویہاں چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر شیری رحمن، محسن عزیز، انوشہ رحمان احمد خان، سید شبلی فراز، سینیٹر منظور احمد اور متعلقہ محکموں کے سینئر حکام شریک ہوئے ،حامد عتیق سرور نے کہاکہ وزیراعظم کی جانب سے نان فائلرز پر پابندیاں لگانے کی منظوری دی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ ایف بی آر میں آڈٹ کا نظام فعال نہیں، اور آڈیٹرز کی کمی ہے، اس لیے غور کیا جارہا ہے کہ آڈیٹرز اور انسپکٹرز کو کنٹریکٹ پر تعینات کیا جائے۔حامد عتیق سرور نے کہا کہ اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ اے سی سی اے، اے سی ایم اے اور چارٹڈ اکانٹنٹس فرمز سے آڈیٹرز تعینات کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں 400 آڈیٹرزتعینات کیے جاسکتے ہیں، جبکہ کل 4 ہزار آڈیٹرز کو تعینات کرنے کی تجویز ہے۔ممبر ایف بی آر نے بتایا کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد 60 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، جبکہ 20 لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ایف بی آر نے کہاکہ 30 ستمبر انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے جس میں توسیع نہیں کی جائے گی۔اجلاس میں بینکنگ کمپنیز (ترمیمی) بل 2024 کو متفقہ طور پر کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔ اجلاس میں سٹیٹ بینک کے گورنر نے اسلامی بینکاری نظام پر بریفنگ دی اور بتایا کہ اسلامی بینکاری شریعہ ایڈوائزری کمیٹی اور شریعہ کمپلائنس ڈیپارٹمنٹ کے تحت شریعہ گورننس فریم ورک (ایس جی ایف) کے ذریعے ریگولیٹ کی جارہی ہے ۔ کمیٹی کے ارکان نے اسلامی بینکاری کے طریقہ ہائے کار کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس پر مزید گفتگو کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اسلامی اصولوں کے مطابق اس کے ضوابط کا جائزہ لیا جا سکے۔چیئرمین نے سٹیٹ بینک کو اسلامی اور روایتی بینکاری کے ضوابط پر مبنی تقابلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔اجلاس کے دوران بتایاگیا کہ مشارکہ معاہدے میں ہبہ کا ذکر غائب ہے جس پر چیئرمین نے تشویش کا اظہار کیا اورکہاکہ بینکس اسلامی بینکاری کے ذریعے زیادہ منافع کما رہے ہیں۔ کمیٹی نے سٹیٹ بینک پر زور دیا کہ وہ ایسا طریقہ کار وضع کرے جو شریعہ کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔ اجلاس میں حکومت کے پیش کردہ بل دی بینکنگ کمپنیز (ترمیمی) بل 2024 کو متفقہ طور پر کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔ سینیٹر محسن عزیز کی جانب سے پیش کردہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2024 کو اکثریت سے منظور کیا گیا۔ سینیٹر انوشہ رحمان نے بل پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔اجلاس میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ چھوٹے صوبوں خصوصا بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بینکوں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کی شرح انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں صنعتی ترقی کی رفتار سست ہے۔ اجلاس کے دوران ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے ارکان پارلیمان (تنخواہیں ور مراعات) ایکٹ 1974 کی شقوں 14 بی اور 14سی میں فنانس ایکٹ 2024 کے تحت کی جانے والی ترامیم پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ترامیم منظور کرنا پارلیمنٹ کا حق ہے۔ کمیٹی نے وزارت خزانہ کو تین دن میں اس معاملے پر جواب دینے کی ہدایت کی۔اجلاس میں ایگزم بینک کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ صدر کی غیر حاضری کے باعث مخر کر دی گئی۔ کمیٹی نے ایگزم بینک سے متعلق دیرینہ مسائل پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور بینک کو تحلیل کرنے کی تجویز پیش کی کمیٹی نے اگلے اجلاس میں ایگزم بینک کے سی ای او کو طلب کر لیا۔ اجلاس میں ایف بی آر کو آڈٹ فرموں کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت اور اس عمل کے طریقہ کار و معیارکابھی جائزہ لیاگیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس وقت 60 لاکھ ٹیکس دہندگان کے آڈٹ کے لیے ایف بی آر کی صلاحیت ناکافی ہے،جس کی وجہ سے فوری طور پر اے سی سی اے اور سی اے پروفیشنلز کی عارضی بنیادوں پر 4000 تقرریاں کی جائیں گی تاکہ موثر آڈٹ کو یقینی بنایا جا سکے۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایاکہ ایف بی آر نے 2005 میں آڈٹ کی ذمہ داریاں آٹ سورس کی تھیں تاہم اس بار انفرادی طور پر معتبر فرموں کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ کمیٹی نے تقرری کا عمل مکمل طور پر شفاف رکھنے پرزوردیا۔۔