اربوں روپے کے نئے ٹیکسوں کا نفاذ باعث تشویش ہے نظرثانی کی جائے۔ فاطمہ عظیم
آرڈیننس کی بجائے ٹیکسوں کا نفاذ پارلیمنٹ کے ذریعے ہونا چاہیے۔ عبدالرحمٰن خان
اسلام آباد (ویب نیوز )
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قائم مقام صدر فاطمہ عظیم نے کہا کہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے 290 ارب کے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کیلئے 2 آرڈیننس متعارف کروانے کی تیاری کر رہی ہے جن کے تحت معیشت کے مختلف شعبوں کو فراہم کردہ 140 ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم کی جا رہی ہے اور بجلی صارفین پر 150 ارب روپے کے سرچارج کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے ان مجوزہ اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کیونکہ اگر ان پر عمل درآمد کیا گیا تو اس سے کاروبار کی لاگت میں مزید اضافہ ہوگا، عام آدمی کے لئے مہنگائی اور زیادہ بڑھے گی، کاروباری سرگرمیاں مشکلات کا شکار ہوں گی، سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہو گا اور مجموعی طور پر معیشت پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے تاجر برادری کے ایک اجلاس کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ چیمبر کے نائب صدر عبدالرحمٰن خان، سابق سینئر نائب صدر خالد چوہدری اور دیگر موجود تھے۔
فاطمہ عظیم نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی قیمت پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ سمجھی جاتی ہے جس نے پیداواری لاگت میں کافی اضافہ کیا ہے اور صنعتی شعبے کی مسابقت کو بہت متاثر کیا ہے۔ ان حالات میں بجلی صارفین پر 150 ارب روپے کے سرچارج کا بوجھ ڈالنے سے پاکستان میں مینوفیکچرنگ لاگت میں مزید اضافہ ہوگا، لوگوں کے لئے مہنگائی ناقابل برداشت ہو جائے گی، کاروباری سرگرمیوں میں مزید سست روی پیدا ہوگی اور معیشت کو بحال کرنے کی تمام کوششوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گردشی قرضوں سے نمٹنے کے لئے حکومت 150 ارب روپے کا سرچارج لگانے کے بجائے بجلی کمپنیوں کے ترسیل و تقسیم کے نقصانات کم کرنے اور بجلی چوری کے مسائل پر قابو پانے پر خصوصی توجہ دے۔
آئی سی سی آئی کی قائم مقام صدر نے کہا کہ معیشت کے مختلف شعبوں کو دی گئی 140ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کو واپس لینے سے ان شعبوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس پالیسیوں کا تسلسل کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کے لئے اشد ضروری ہے تا کہ وہ اعتماد کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکیں جبکہ ٹیکس پالیسیوں میں بار بار تبدیلیوں سے ان کا اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔لہذا انہوں نے مطالبہ کیا کہ موجودہ دی گئی ٹیکس چھوٹ کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائے اور وقت سے پہلے ان کو ختم نہ کیا جائے۔انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ حکومت کم از کم 5 سالہ ٹیکس پالیسی کا اعلان کرے تا کہ کاروباری طبقہ اور سرمایہ کار زیادہ اعتماد کے ساتھ کاروبار کو وسعت دینے اور سرمایہ کاری کرنے کے فیصلے کر سکیں۔
آئی سی سی آئی کے نائب صدر عبد الرحمن خان نے کہا کہ حکومت آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس عائد کرنے کے بجائے ایسی تجاویز کو پارلیمنٹ میں پیش کرے تا کہ ان پر مکمل بحث کر کے ایسے فیصلے کئے جائیں جن سے پاکستان کے کاروباری اور معاشی مفادات کا بہتر تحفظ کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں نے ہمیشہ کاروباروں طبقے اور عام آدمی کو مشکلات سے دوچار کیا ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرنے کی بجائے ملکی وسائل کو استعمال میں لا کر خود انحصاری کو فروغ دے جس سے معیشت پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہو گی۔