پاکستان، آئی ایم ایف کے درمیان چھٹے اقتصادی جائزہ کے مذاکرات بے نتیجہ ختم

آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی اگلی قسط بھی تاخیر کا شکار ہو گئی ہے، مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا، شوکت ترین

اسلام آباد(ویب  نیوز)پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چھٹے اقتصادی جائزہ کے مذاکرات بغیر نتیجہ ختم ہو گئے۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کو 3برس کے دوران چھ ارب ڈالر کا قرض دینے کی منظوری دی ہوئی ہے، اس وقت پاکستان عالمی مالیاتی ادارے سے پانچ قسطیں وصول کر چکا ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چھٹے اقتصادی جائزہ مذاکرات بغیر نتیجہ ختم ہو گئے ہیں، آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی اگلی قسط بھی تاخیر کا شکار ہو گئی ہے۔وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے میڈیا سے غیر رسمی بات چیت کے دوران تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ غریبوں پر بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ آئی ایم ایف پاکستانی معیشت کا ستمبر میں جائزہ لے گا۔انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا، آئی ایم ایف اگلے دو سے تین ماہ کی کارکردگی مانیٹر کرے گا، آئی ایم ایف کو متبادل پلان دیا گیا جس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کا رویہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ نہیں ہے۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2022-23 کے دوران 6 فیصد پر گروتھ کریں گے،2018 میں 5.8 فیصد سے غیرمستحکم گروتھ دکھائی گئی۔ ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہ ہونے سے گروتھ میں استحکام نہیں۔ رواں مالی سال کیلئے 2.1 فیصد کا گروتھ ہدف تھا، اگلے 25 سے 30 سال مستحکم گروتھ کی ضرورت ہے، سالانہ 1 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا رویہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ نہیں، عالمی مالیاتی ادارہ چاہتا ہے تمام اہداف کو فوراً منوایا جائے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے ادارہ جاتی اصلاحات فورا ًکی جائیں۔ آئی ایم ایف کو ریونیو اہداف کا متبادل پلان دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر شرح سود 13.25 فیصد پر گئی، شرح سود میں اضافہ کے باعث ڈیٹ سروسنگ 3 ہزار ارب روپے ہوئی، عالمی ادارے نے بجلی، گیس ٹیرف بڑھانے کی شرط عائد کی۔ بجلی، گیس ٹیرف بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔شوکت ترین نے کہا کہ ٹیرف بڑھنے سے صنعتوں کا پہیہ بھی سست ہوا، گزشتہ آٹھ ماہ سے کرنٹ اکانٹ خسارہ سرپلس ہے، زرعی ملک ہونے کے باوجود ملک کی قلت کا شکار ہو گیا۔