یہاںں کچھ بنیادی حقوق ہیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے،چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس
ہم میکنزم بنا رہے ہیں ایف آئی اے کے ساتھ میٹنگز ہورہی ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل
ایف آئی اے کے تفتیشی واٹس ایپ پر نوٹس بھیجتے ہیں،چیف جسٹس اطہر من اللہ کے اختیارات کے بے جا استعمال کیس میں ریمارکس
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ایف آئی اے معاشرے میں خوف پھیلا رہی ہے ۔بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے سائبر کرائم کی جانب سے اختیارات کے بے جا استعمال کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم عدالت میں ہوئے پیش ہوئے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کو کورٹ نے بار بار کہا لیکن عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہورہا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم نے جواب دیا کہ اس وقت ہزاروں شکایات ہمارے پاس زیر التوا ہیں۔ چیف جسٹس نے یمارکس دیئے کہ یہاں کچھ بنیادی حقوق ہیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے آپ اپنے اختیار کو احتیاط سے استعمال کریں، اس تاثر کو ختم کریں کہ ایف آئی اے سائبر کرائم کی جانب سے اختیار کا غلط استعمال ہورہا ہے۔چیف جسٹس نے ڈائریکٹر سائبر کرائم سے کہا کہ آپ کسی کو جو نوٹس کرتے ہیں اس کے اثرات ہیں یقینی بنانا چاہیے کہ سارا عمل فئیر ہو، آپ نوٹس پر کوئی تاریخ نہیں لکھتے اور کہتے ہیں ہمارے پاس پیش ہو جائیں ایسے تو نہیں ہوتا، آپ کے کئی نوٹس معطل کئے لیکن اس میں کوئی بہتری نہیں آئی، ایک شخص کہتا ہے فلاں کے بارے میں کچھ کہا گیا تو کیا وہ جرم بن جائے گا ؟جس کا وقار کسی نے خراب کیا وہ شکایت کنندہ ہو سکتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا میرے خلاف کوئی بات کرے آپ کسی اور کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر لیں ایسا نہیں ہے مجھے ہی شکایت کنندہ ہونا ہوگا، آپ سوسائٹی میں خوف پھیلا رہے ہیں ایف آئی اے کا نوٹس تھریٹ ہوتا ہے، ایف آئی اے کا ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے کہ آپ نے اختیارات کیسے استعمال کرنے ہیں ۔ڈائریکٹر سائبر کرائم ہم نے پورے پاکستان میں آپ کے آرڈرز کو بھیجوا دیا ہے اس پر عمل ہورہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت توقع کرتی ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم اس حوالے سے اختیارات استعمال میں محتاط رہے گی۔سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود عدالت کے سامنے پیش ہوئے، اور موقف دیا کہ ہم اس حوالے سے میکنزم بنا رہے ہیں ایف آئی اے کے ساتھ میٹنگز ہورہی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کون سا طریقہ ہے کہ ایف آئی اے کے تفتیشی واٹس ایپ پر نوٹس بھیجتے ہیں۔ ڈائریکٹر سائبر کرائم نے جواب دیا کہ ایک شکایت کنندہ جس کے آبا ئواجداد سے متعلق صحافی بلال غوری نے بات کی اس کو رپورٹ کرایا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر کوئی میری فیملی سے متعلق کوئی بات کرے تو کیا میں شکایت درج کرا سکتا ہوں ؟ کیا کریمنل معاملے میں اسکو جرم کہا جا سکتا ہے ؟ کیا شفا یوسفزئی کی شکایت پر ایف آئی اے نے نوٹس جاری کیا ؟۔ایف آئی اے تفتیشی کی جانب سے نیا نوٹس عدالت کے سامنے پیش کردیا گیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو وجہ بتائے بغیر نوٹس کرنا اسے دھمکی اور خوفزدہ کرنا ہے، اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے آپ کے ایس او پیز ہونے چاہئیں، تفتیشی افسر کو نوٹس جاری کرنے سے پہلے معاملے کی چھان بین کرنی چاہئے، جس کی ساکھ متاثر ہو صرف وہی متاثرہ شخص شکایت کر سکتا ہے، یہ کون سا طریقہ ہے کہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر واٹس ایپ پر نوٹسز بھیجیں؟۔ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت سے کہا کہ شکایت کنندہ کے مطابق ستمبر 2020 میں بلال غوری نے میرے آبا ئواجداد کے بارے میں غلط باتیں کہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ میرے والد کے بارے میں کوئی کچھ کہے تو کیا وہ کریمنل جرم بنے گا؟ اگر آپ نوٹس کے ساتھ اس کمپلینٹ کی کاپی بھجوا دیتے تو بہتر ہوتا۔نجی ٹی وی کی اینکرپرسن شفا یوسفزئی کی صحافی اسد طور کے خلاف شکایت پڑھ کر سنائی۔ عدالت نے کہا کہ یہ عدالت اس حوالے سے واضح ہے کہ بنیادی حقوق پر عمل درآمد یقینی بنائے گی، ایف آئی اے کو اس تاثر کو ختم کرنا ہے کہ آپ صرف صحافیوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، اگر سوسائٹی میں اختلاف رائے نہیں ہو گا تو ٹھیک نہیں ہے، پہلے بھی آپ کو سمجھایا تھا یہ پرسنل معاملہ ہے ، آپ نے خود تسلیم کیا ہزاروں کیسز ہیں، کیسے آپ وضاحت کریں گے کہ کچھ صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، اگر ایف آئی اے نے اس طرح ہی جاری رکھا تو ایک جرنلسٹ بھی نہیں رہے گا ایک پارلیمنٹیرین نہیں رہے گا، عدالت اس پر نہیں جاتی کہ الزام درست ہے یا نہیں۔ دوسرے کیسز ایف آئی اے نے اس تاثر کو زائل کرنا ہے کہ آپ صرف صحافیوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، عدالت نے اسدطور کے حوالے سے مقدمہ نمٹا دیا جبکہ دیگر درخواستوں کی سماعت 30جولائی تک ملتوی کردی ۔