افغانستان کی بدلتی صورتحال،امریکی سی آئی اے سربراہ کا بھارت کا دورہ،قومی سلامتی کے روسی مشیر کی بھی دہلی آمد

نئی دہلی( ویب  نیوز)امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ خفیہ دورہ پردہلی میں افغانستان کی صورت حال پر بھارتی حکام سے بات چیت کر رہے ہیں۔ اس دوران  قومی سلامتی کے روسی مشیر بھی بھارتی دورے پر ہیں اور ان کے ساتھ بھی انہی مسائل پر بات چیت ہو رہی ہے۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی خفیہ ادارے سی آئی کے سربراہ  ولیئم جے برنز افغانستان کی بدلتی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے بھارت کے دورے پر ہیں۔ نئی دہلی میں وہ اعلی سیاسی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کے علاوہ سکیورٹی اور دفاعی امور کے سینیئر اہلکاروں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ بدھ کے روز ان کی ملاقات بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال سے ہوئی اور اطلاعات کے مطابق اس میٹنگ میں افغانستان کی تازہ صورت حال پر تفصیلی گفت و شنید بھی ہوئی۔ طالبان کی نئی عبوری حکومت کے قیام کے پس منظر میں ان کا یہ دورہ کافی ا ہمیت کا حامل ہے۔اجیت ڈوبھال کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں تاہم بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس میں سکیورٹی کا موضوع سب سے اہم  تھا۔ بھارت نے افغانستان میں کافی سرمایہ کاری کی ہے تاہم امریکی انخلا کے ساتھ بھارت کو بھی اپنا سب کچھ بند کر کے افغانستان سے نکلنا پڑا ہے اور سکیورٹی کے حوالے سے اسے کافی اندیشے لاحق ہیں۔افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد سے ہی بھارت بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ وہ اس بات کی توقع کرتا ہے کہ طالبان اپنی سر زمین پر شدت پسندوں کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے۔ بھارت کو کشمیر کے حوالے سے خاص تشویش لاحق ہے جہاں آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ہی تشدد بھی جاری اور بھارتی قابض سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان آئے دن تصادم ہوتا رہتا ہے۔  اطلاعات کے مطابق بھارتی حکام نے امریکی افسر کے ساتھ اپنے انہی خدشات کا ذکر کیا ہوگا۔ تاہم سینیئر صحافی اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے سکریٹری سنجے کپور کہتے ہیں کہ امریکا بھی اپنے مفاد کے لیے نئی دہلی میں ہے۔ جرمن ٹی وی ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا، امریکا چاہتا ہے کہ بھارت پناہ گزینوں کے حوالے سے اس کے بوجھ کو کم کرے۔سنجے کپور کا مزید کہنا تھا کہ ہزاروں افغان تو ابھی قطر میں ہیں اور اب سوال یہ کہ انہیں نکال تو لیا گیا ہے،تاہم سب کو امریکا میں جگہ دینا اتنا آسان کم نہیں ہے۔

امریکا چاہتا ہے کہ بھارت کچھ ہزار افغان شہریوں کو اپنے ملک میں بھی پناہ دے اور اس ملاقات میں اس پر بھی بات ہوئی ہو گی۔بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی  اپنے روسی قومی ہم منصب نکولائی پاتروشیو سے بھی بات چیت ہوئی۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس بات چیت میں چین، پاکستان اور افغانستان جیسے امور پر زیادہ توجہ مرکوز کی  گئی۔ واضح رہے کہ افغانستان میں اس وقت جن ممالک کا اثر و رسوخ زیادہ ہے، ان میں روس بھی ایک ہے۔تجزیہ کار سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نکولائی پاتروشیو کے آنے کے دو مقاصد ہیں،”ایک تو شنگھائی کوآپریشن کے حوالے سے بھارتی حکومت سے صلاح و مشورہ کرنا ہے اور دوسرا یہ کہ بھارت کو معلوم ہے کہ افغانستان کے معاملے میں اس وقت روس امریکا سے بھی اہم ہے اور اسی سے امیدیں رکھی جا سکتی ہیں

 

۔گزشتہ ہفتے بھارتی خارجہ سیکرٹری نے واشنگٹن کا تین روز دورہ کرنے کے بعد نئی دہلی واپسی پر کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ بھارت کے بڑے محدود رابطے ہیں تاہم طالبان کے ساتھ اب تک کی جو بات چیت ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ طالبان بھارتی خدشات اور تشویش سے متعلق معقول رویہ اپنائیں گے۔ لیکن روس میں بھارتی سفیر ڈی بی ونکٹیش ورما نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا کہ طالبان کے ساتھ دوحہ میں بھارتی مندوبین کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے ہیں۔ ان کا کہنا تھا،”میرے خیال میں اس کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ بہتر یہی ہوگا کہ بھارت اور روس افغانستان کے حوالے سے مل کر ایک ساتھ کام کریں۔ یہ ہمارے لیے سب سے اہم سبق ہے۔ادھر بھارت کے بیشتر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرنے سے بھارت کو مستقبل میں کافی نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے نئی دہلی کو دوطرفہ روابط قائم کرنے کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کرنا چاہیے۔کئی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کے لیے مشکل یہ ہے کہ اس مرتبہ وہ طالبان کی حکومت سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا، جیسا کہ اس نے نوے کی دہائی میں کیا تھا کیونکہ نئی افغان حکومت کو بھارت کے اتحادی ملک امریکا نے قانونی جواز فراہم کر رکھا ہے۔دوسری طرف بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں بھارت کے حوالے سے طالبان رہنماں کے قدرے متضاد بیانات سے نئی دہلی فی الحال شش و پنج کا شکار ہے
#/S