این ایچ اے کے اخراجات اور آمدن کتنی ہے، سڑکوں پر تلاشی کے نام پر عوام کی تضحیک کی جاتی ہے، جسٹس مظہر عالم میاں خیل

عدالت نے سماعت دسمبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی

اسلام آباد  (ویب ڈیسک)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کوئٹہ کراچی روڈ حالت زار کیس میں این ایچ اے سے شاہراہوںسے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ۔بدھ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں کوئٹہ کراچی روڈ حالت زار کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو ملک کی شاہراہوں سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین این ایچ اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ بتایا جائے کوئٹہ کراچی روڈ پر مسافروں کے تحفظ کیلئے پولیس تعینات کیوں نہیں کی گئی، شاہراہوں کی حالت زار سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرات ہوسکتے ہیں، کوئٹہ کراچی روڈ کی حالت زار کو 100 فیصد تک درست کیا جائے، ہائی ویز پر ریفلکٹرز، مارکنگ لائن کا کام غیر معیاری ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمدنے کہا کہ روڈ پر مارکنگ ایک بارش کی نذر ہو جاتی ہے، چترال گلگت روڈ کی تعمیر کاغذوں میں مکمل ظاہر کی گئی، حقیقت اس کے برعکس ہے، کوئٹہ کراچی روڈ کو موٹروے کی طرز پر کیوں نہیں بنایا جا رہا ہے، لاہور اسلام آباد موٹروے کو چھوڑ کر باقی تمام ہائی ویز کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ، چترال گلگت روڈ پر صرف پتھر ہی پتھر ہیں، چترال گلگت روڈ پر گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔چیئرمین این ایچ اے نے بتایا کہ چترال گلگت روڈ پر پہلے صوبائی حکومت کام کر رہی تھی، ایک سال پہلے چترال گلگت روڈ این ایچ اے کو دی گئی ۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہر سال ہائی ویز کی تزئین و آرائش پر اربوں روپے کے اخراجات دکھائے جاتے ہیں، این ایچ اے سے کراچی حیدر آباد روڈ نہیں بن رہا، این ایچ اے کوئی معیاری کام نہیں کر رہا ہے، پل اس وقت تک نہیں بنایا جاتا جب تک 10 لوگ مر نہ جائیں۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ این ایچ اے کے اخراجات اور آمدن کتنی ہے، سڑکوں پر تلاشی کے نام پر عوام کی تضحیک کی جاتی ہے۔عدالت نے سماعت دسمبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔