لاہور (ویب نیوز)
کارپٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے چیئر پرسن و لاہور چیمبر کے سابق صدر پرویز حنیف نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت میںبے پناہ پوٹینشل ہے لیکن بد قسمتی سے ہماری سمت درست نہیں ہے ،اوورسیز پاکستانیوں کی اربوں ڈالر کی ترسیلات زر کو برآمدات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اور اگر اس کے ساتھ مصنوعات کی برآمدات سے حاصل آمدن کو شامل کر لیا جائے تو یہ معیشت کو چلانے کیلئے کچھ حد تک قابل اطمینان حجم ہے ، 22کروڑ آبادی کا صرف ایک فیصد طبقہ ایسا ہے جن کے استعمال کی لگژری مصنوعات کی درآمدپر غریب قوم کے اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اپنے بیان میں پرویز حنیف نے کہاکہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو پانی کی شدید کمی کا شکار ہیں ، آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سالانہ اربوں ڈالر کا پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کر رہا ہے ۔ اگر بڑے آبی ذخائر تعمیر کرنے کیلئے وسائل نہیں ہیں اور ان کی تعمیر کے لئے وقت درکار ہے تو ہم چھوٹی جھیلوں کی صورت میں آبی ذخائر بنا سکتے ہیں جہاں بارشوں کا پانی جمع کر کے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن آج تک کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی ۔زراعت میں پانی کے ضیاع کو بچانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہیں کیا جارہا جس سے پانی کی بہت بڑی مقدار استعمال میں آنے کی بجائے ضائع ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت کا ساراسٹرکچرفرسودہ ہو چکا ہے اسے ماہرین،اسٹیک ہولڈرز سے وسیع مشاورت کے بعد نئے سرے سے بنیاد فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں جتنا ٹیکس اکٹھا کیا جارہا ہے اس سے مزید کئی گنا زائد اکٹھا ہو سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے جس ادارے کی ذمہ داری ہے وہی اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور چور راستوں کے ذریعے نہ صرف اربوں روپے قومی خزانے کی بجائے لوگوں کی جیبوں میں جارہے ہیں بلکہ لوگ بھی ٹیکسیشن کے نظام سے بر ملا اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔