•  شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیس میں بری ہوگئے
  • اسلم زیب بٹ گواہ نے بھی کوئی بیان قلمبند کروایا؟،فاضل جج کا استفسار
  •  تفتیشی نے گواہ اسلم کے بیان کو توڑ مروڑ کر چالان میں پیش کیا ،وکیل امجد پرویز
  • قانون کے مطابق پراسیکیوشن کو اپنا لگایا گیا الزام ثابت بھی کرنا ہوتا ہے،جج

شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد کارکنانِ نے جشن منا یا؟ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے

لاہور (web نیوز)

وزیراعظم  شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز  ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیس میں بری ہوگئے۔اسپیشل سینٹرل کورٹ لاہور نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کا فیصلہ سنایا۔11 اکتوبر کو اسپیشل سینٹرل کورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں بریت کی درخواستوں پر وکلا کو بدھ  تک دلائل مکمل کرنیکی ہدایت کی تھی، ایف آئی اے نے عدالت کوبتایا تھاکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اکانٹ میں براہ راست پیسے جمع ہونے یا نکلوانے کے کوئی شواہد نہیں۔ بدھ کو عدالت میں سماعت کے دوران شہباز شریف کے وکیل نے بتایا کہ تفتیشی افسر نے گواہوں کے بیانات توڑ مروڑ کرپیش کرنیکی کوشش کی، وکیل نے موقف اپنایا کہ 161 کے بیانات میں کسی گواہ نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا ذکر نہیں کیا، تحریری دلائل عدالت میں جمع کرادیے ہیں۔شہباز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کردیا تھا ۔بدھ کو سپیشل سنٹرل کورٹ لاہور میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر کیخلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی۔سپیشل جج سنٹرل اعجازحسن اعوان نے کیس کی سماعت کی جبکہ سپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ اورملزمان کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔شہبازشریف اورحمزہ شہباز کی حاضری معافی کی درخواستیں دائرکی گئیں جس میں وکیل نے موقف  اپنایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کا بیرون ملک کا دورہ شیڈول ہے۔ وزیراعظم بیرون جانے کی وجہ سے عدالت پیش نہیں ہو سکتے۔ حمزہ شہباز کمر میں تکلیف کے سبب عدالت پیش نہیں ہو سکتے۔ایڈووکیٹ امجد پرویز نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی کو ایک روز کیلئے حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ 161 کے بیانات میں کسی بھی گواہ نے شہباز شریف اور حمزہ کو نامزد نہیں کیا ۔عدالت نے گواہوں کے بیانات کا ریکارڈ کھلوا لیا۔فاضل جج نے استفسارکیا کہ اسلم زیب بٹ گواہ نے بھی کوئی بیان قلمبند کروایا؟ جس پروکیل نے جواب دیا کہ تفتیشی نے گواہ اسلم کے بیان کو توڑ مروڑ کر چالان میں پیش کیا ہے۔ امجدپرویزایڈووکیٹ نے کہا کہ ایف آئی اے نے اسلم زیب بٹ کو گواہوں کی فہرست میں شامل تو کیا مگر پیش نہ کرنے کا بھی کہا ہے۔ اسلم زیب بٹ گواہ ہے اور اس کا والد اورنگزیب بٹ اسی کیس میں ملزم ہے۔امجد پرویزایڈووکیٹ نے ایل کے ایڈوانی کیس میں بھارتی عدالت کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایل کے ایڈوانی کیس میں ناجائز فائدے لینے کے ویڈیو بیانات کے باوجود عدالت نے الزام کو تسلیم نہیں کیا تھا۔فاضل جج نے کہا کہ قانون کے مطابق پراسیکیوشن کو اپنا لگایا گیا الزام ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔وکیل امجد پرویز نے کہا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا کیس بریت کیلئے ایل کے ایڈوانی کیس سے بھی زیادہ مضبوط وجوہات پر کھڑا ہے۔ عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ تفتیشی افسر نے کوئی بھی الزام ثبوت کیساتھ نہیں لگایا، مسرور انور کے بارے میں کہا گیا کہ وہ حمزہ شہباز کا قابل اعتماد کیش بوائے تھا۔سپیشل پراسکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ مسرورانور ملزم میاں شہباز اور گلزار احمد کے اکائونٹس آپریٹ کرتا رہا ہے۔عدالت نے استفسارکیا کہ مسرورانور نے گلزار کے اکائونٹس سے کتنی ترسیلات کیں؟۔سپیشل پراسکیوٹر فاروق باجوہ نے بتایا کہ مسرورانور نے شہباز شریف اور گلزار کے اکائونٹس 4 ترسیلات کیں جس پرعدالت نے ہدایت کی کہ ان 4 ترسیلات کا ریکارڈ دکھائیں۔سپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ 4 ترسیلات کا ریکارڈ تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملا۔ عدالت نے عملے کو ہدایت کی کہ آرڈرشیٹ پر پراسیکیوٹر اور تفتیشی کے دستخط لے لیں۔فاروق باجوہ نے کہا کہ ہمیں وقت دیں ہم ریکارڈ سے ثابت کرتے ہیں کہ 4 ترسیلات کا ریکارڈ موجود ہے۔ 20 منٹ تک ریکارڈکی تلاش کے باوجود 4 ترسیلات جو گلزارکی وفات کے بعد مسرور انور نے کیں ان کا ریکارڈ نہ مل سکا۔دوران سماعت پراسیکیوٹر نے تسلیم کرلیا کہ مسرورانور سے منسوب 4 ترسیلات کا ریکارڈ موجود نہیں ہے،۔شہباز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کردیا ،بعد میں اسپیشل سینٹرل کورٹ کے جج اعجاز اعوان نے وزیراعظم شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستیں منظور کرلیں اور محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے دونوں کو مقدمے سے باعزت بری کرنے کا حکم دے دیا۔لاہور کی خصوصی عدالت کی جانب سے صدر مسلم لیگ (ن) اور وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد کارکنانِ نے جشن منا یاور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے۔خیال رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 419، 420، 468، 471، 34 اور 109 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، سلیمان شہباز برطانیہ میں ہیں اور انہیں مفرور قرار دے دیا گیا تھا۔بدعنوانی کی روک تھام کے قانون کی دفعہ 5 (2) اور 5 (3) (مجرمانہ بدانتظامی) کے تحت 14 دیگر افراد کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کردیا تھا۔ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکانٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپڑاسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکانٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکانٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلی پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحق ڈار کی مدد سے کیا۔ایف آئی اے نے کہا تھا کہ یہ چالان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرم کی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامی عہدوں پر براجمان رہے تھے۔

قبل ازیں لاہور کی سپیشل سنٹرل کورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔بدھ کو سپیشل سنٹرل کورٹ لاہور میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر کیخلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی۔سپیشل جج سنٹرل اعجازحسن اعوان نے کیس کی سماعت کی جبکہ سپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ اورملزمان کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔شہبازشریف اورحمزہ شہباز کی حاضری معافی کی درخواستیں دائرکی گئیں جس میں وکیل نے موقف  اپنایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کا بیرون ملک کا دورہ شیڈول ہے۔ وزیراعظم بیرون جانے کی وجہ سے عدالت پیش نہیں ہو سکتے۔ حمزہ شہباز کمر میں تکلیف کے سبب عدالت پیش نہیں ہو سکتے۔ایڈووکیٹ امجد پرویز نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی کو ایک روز کیلئے حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ 161 کے بیانات میں کسی بھی گواہ نے شہباز شریف اور حمزہ کو نامزد نہیں کیا ۔عدالت نے گواہوں کے بیانات کا ریکارڈ کھلوا لیا۔فاضل جج نے استفسارکیا کہ اسلم زیب بٹ گواہ نے بھی کوئی بیان قلمبند کروایا؟ جس پروکیل نے جواب دیا کہ تفتیشی نے گواہ اسلم کے بیان کو توڑ مروڑ کر چالان میں پیش کیا ہے۔ امجدپرویزایڈووکیٹ نے کہا کہ ایف آئی اے نے اسلم زیب بٹ کو گواہوں کی فہرست میں شامل تو کیا مگر پیش نہ کرنے کا بھی کہا ہے۔ اسلم زیب بٹ گواہ ہے اور اس کا والد اورنگزیب بٹ اسی کیس میں ملزم ہے۔امجد پرویزایڈووکیٹ نے ایل کے ایڈوانی کیس میں بھارتی عدالت کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایل کے ایڈوانی کیس میں ناجائز فائدے لینے کے ویڈیو بیانات کے باوجود عدالت نے الزام کو تسلیم نہیں کیا تھا۔فاضل جج نے کہا کہ قانون کے مطابق پراسیکیوشن کو اپنا لگایا گیا الزام ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔وکیل امجد پرویز نے کہا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا کیس بریت کیلئے ایل کے ایڈوانی کیس سے بھی زیادہ مضبوط وجوہات پر کھڑا ہے۔ عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ تفتیشی افسر نے کوئی بھی الزام ثبوت کیساتھ نہیں لگایا، مسرور انور کے بارے میں کہا گیا کہ وہ حمزہ شہباز کا قابل اعتماد کیش بوائے تھا۔سپیشل پراسکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ مسرورانور ملزم میاں شہباز اور گلزار احمد کے اکائونٹس آپریٹ کرتا رہا ہے۔عدالت نے استفسارکیا کہ مسرورانور نے گلزار کے اکائونٹس سے کتنی ترسیلات کیں؟۔سپیشل پراسکیوٹر فاروق باجوہ نے بتایا کہ مسرورانور نے شہباز شریف اور گلزار کے اکائونٹس 4 ترسیلات کیں جس پرعدالت نے ہدایت کی کہ ان 4 ترسیلات کا ریکارڈ دکھائیں۔سپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ 4 ترسیلات کا ریکارڈ تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملا۔ عدالت نے عملے کو ہدایت کی کہ آرڈرشیٹ پر پراسیکیوٹر اور تفتیشی کے دستخط لے لیں۔فاروق باجوہ نے کہا کہ ہمیں وقت دیں ہم ریکارڈ سے ثابت کرتے ہیں کہ 4 ترسیلات کا ریکارڈ موجود ہے۔ 20 منٹ تک ریکارڈکی تلاش کے باوجود 4 ترسیلات جو گلزارکی وفات کے بعد مسرور انور نے کیں ان کا ریکارڈ نہ مل سکا۔دوران سماعت پراسیکیوٹر نے تسلیم کرلیا کہ مسرورانور سے منسوب 4 ترسیلات کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔