سیاست دشمنی میں تبدیل ہوجائے تو عوام کے مسائل رہ جاتے ہیں،شاہد خاقان عباسی

بلوچستان میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کیاگیا۔نواب اسلم رئیسانی

 ہمیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان کیسے بنائیں جو سب کیلیے اچھا ہو؟مفتاح اسماعیل

 کوئٹہ میں منعقدہ سیمینار سے سیاسی رہنماں کا مقررین کا خطاب

کوئٹہ( ویب  نیوز)

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ عوام کے مسائل ان کے باہر نکلنے سے پہلے حل کیے جائیں، ملک میں نئے سوشل کنٹریکٹ پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کو کوئٹہ میں پاکستان کے تصور نو پر قومی ڈائیلاگ سے متعلق منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا سیمینار سے سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی ،سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی ، سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ودیگر نے بھی خطاب کیا ۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سیاست دشمنی میں تبدیل ہوجائے تو عوام کے مسائل رہ جاتے ہیں۔شاہد خاقان نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ معیشت کی بد حالی اور سیاست کی ناکامی انتہا کو پہنچ چکی، کوئی ایسا فورم نہیں ہے کہ جہاں آج مسائل کی بات ہو۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے غیر معمولی حالات کا مقابلہ غیر معمولی عمل سے کرنا پڑے گا۔مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ روزگار صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ مفتاح اسماعیل نیسوال کیا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان کیسے بنائیں جو سب کیلیے اچھا ہو؟انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اچھا بنانا ہے تو یہ کام ہمیں ہی کرنا ہے، ملک اس وقت 50 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے، ہمیں ہر برس 20 ارب ڈالر دینے ہیں۔سابق وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ پچھلے سال عمران خان 18 ارب کا خسارہ چھوڑ کر گئے تھے، ملک میں 8 کروڑ افراد غربت میں رہ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو عزت دار قوم بننے کیلیے اپنے پاوں پر کھڑا ہونا پڑے گا، ہر پاکستانی کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم 2 ہزار ارب روپے سے زائد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، ہمیں اسکولوں کا نظام بہتر کرنا ہوگا، ہمیں یہ تصور کرنا ہے کہ پاکستان میں بچوں کو اچھی تعلیم حاصل ہو۔ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ملک میں 15سے 50 سال کی 42 فیصدخواتین میں آئرن کی کمی ہوتی ہے، روزگار صرف بلوچستان نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے، ہمیں سب پاکستانیوں کو روزگار دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ امید ہے اس سال بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ میں 400 ارب روپے ملیں گے۔ان کا کہنا تھاکہ ایسی کیا وجہ ہے لوگ غریب ہیں، یہ دیکھنا ہے ہم کس روش پر جارہے ہیں، 60 فیصد پاکستانی ایسے ہیں جن کی آمدنی 35 ہزار روپے سے کم ہے۔سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ہر پاکستانی کی آمدنی بڑھانا ہے، ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ لوگوں کا اچھا معاش ہو، ہمیں یہ تصور کرنا ہے کہ ہر شخص کی آمدنی 1 لاکھ روپے ہو۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک زرعی ملک ہے، غلطی کسان کی نہیں بلکہ پالیسی سازوں کی ہے، یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ملک میں صحت کے تمام مواقع اور سہولیات ہوں، ہم ملک میں ہم آہنگی اور محبت کو بڑھا سکتے ہیں۔سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے کہاکہ بلوچستان کے 9,000 بچے، پولیٹکل ایکٹیویسٹ غائب ہیں، ہم خوف سے بچوں کو یونیورسٹیوں میں نہیں بھیج سکتے کہ کوئی اٹھا کر نہ لے جائے۔ نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ 1948 کے بعد شروع ہونے والی شورش آج تک جاری ہے، اسلام آباد والے اس شورش کو محسوس کرنے پر تیار نہیں۔نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کیا گیا ہے، اگر کہا جائے کہ ریاست ماں ہوتی ہے تو ایسا تو کوئی ماں نہیں کرتی۔انہوں نے کہا کہ ہم لوگ جو وفاق کی بات کرتے ہیں وہ مشکل میں ہیں، ہم بلوچ، پشتون، پنجابیوں، سندھیوں اور سب مظلوموں کے ایجنٹ ہیں، ہم مضبوط وفاق کی بات کرتے ہیں۔نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ وفاق اس وقت مضبوط ہوگا جب وفاقی اکائیاں مضبوط ہوں گی، ہمیں یہ دیکھنا ہے کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ پاکستان کا نیا تصور کر سکیں۔سابق سینیٹر نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کہا ہے کہ ہم نے دیکھا ہے پارلیمنٹ بھی ایک حد تک مفلوج ہے۔ لشکری رئیسانی نے کہا کہ امید ہے کہ آج مسائل کو میڈیا اور دیگر فورمز پر آگے بڑھایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ پارلیمنٹ بھی ایک حد تک مفلوج ہے، سیاست اور پارلیمنٹ میں بھی دخل اندازی ہوتی رہی ہے۔لشکری رئیسانی نے مزید کہا کہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ڈائیلاگ کی ایک سیریز شروع کریں، اس عمل کو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی لے جایا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ رات کے اندھیرے میں جماعت بنتی ہے پھر ہمارے وسائل بیچے جاتے ہیں، ہم ایک نئے تصور کے ساتھ اٹھیں تو یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔سابق سینیٹر نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں مختلف فرضی دشمن ایجاد کیے گئے، صوبے کے 80 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں نے ناانصافیوں اور پانی سمیت دیگر مسائل پر احتجاج کیا۔