• لیگی رہنما نے چیف جسٹس آف پاکستان کے پارلیمنٹ سے متعلق ریمارکس کو پارلیمانی معاملات میں مداخلت قرار دے دیا
  • کسی ایک وزیر اعظم کو دیانت دار قرار دینے کا فتویٰ صادر کرنے کا استحقاق ان کو کس نے دیا ؟ سینیٹ اجلاس میں اظہار خْال

اسلام آباد  (ویب نیوز)

سینیٹ میں حکمران جماعت کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے چیف جسٹس آف پاکستان کے پارلیمنٹ سے متعلق ریمارکس کا معاملہ اٹھاتے ہوئے اسے پارلیمان کے معاملات میں مداخلت قرار دے دیا ۔ حکومتی جماعت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ عدلیہ قانون میں سقم کی نشاندہی کر سکتی ہے مگر پارلیمان کے کردار پر بات نہیں کر سکتی جو کہ ملک کا نمائندہ عوامی فورم ہے ۔ جمعہ کو عوامی اہمیت کے نکتہ اعتراضات کے موقع پراجلاس سینیٹر مولانا عطا الرحمان کی صدارت میں ہوا ۔ مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے نکتہ اعتراض پر پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر شبلی فراز کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آمریتوں کے خلاف لڑنے والے ایک جانباز کے بیٹے نے میری عمر کا حوالہ دیتے ہوئے شرم و حیا دلانے کی کوشش کی ہے ۔ شبلی فراز مجھے فخر ہے کہ میں ا ن والدین کا بیٹا اور خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جو ہمیشہ شرم و حیا کا پاس رکھتے ہیں ۔ میری آنکھوں میں اس وقت بھی شرم و حیا تھی جب اس عمر کو نہ پہنچا تھا اور شبلی فراز جیسا تھا ۔ میرے خیال میں ہمیں مہذب انداز میں بات کرنی چاہیے میں اپنے عزیز کو جواب نہیں دینا چاہتا ۔  ہمیشہ شرم و حیا کا سبق و درس ایک دوسرے کو نہیں دینا چاہیے ۔ عمل و کردار کو لوگ جانتے ہیں ۔مجھے معلوم ہے ان کے دور میں  انسانی اقدار کی کتنی پاسداری ہوتی تھی میں جانتا ہوں  کس طرح  انسانی حقوق کی پامال ہوتے رہے ۔ میں خود ان انسانی حقوق کی پاسداری کی علامت رہا ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ کس طرح افیون اور چرس کے کیسز بنائے جاتے تھے اور مہینوں لوگ جیلوں میں پڑے رہتے تھے اس وقت کسی کی آنکھ میں شرم کی انگڑائی لیتے نہیں دیکھا ۔ کوئی آواز نہیں اٹھتی تھی کسی دل کے اندر درد پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ کوئی انسانی حقوق کی دہائی نہیں دی جاتی تھی ۔ ہم کہتے تھے کہ یہ وہ فصل ہے جو کاٹی جائے گی اور جب کاٹنی پڑے گی تو رونا پڑے گا  ۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ان معاملات کو ہم چھوڑ دیتے ہیں میں انتہائی اہم ترین معاملے چیف جسٹس آف پاکستان عمر بندیال کے پارلیمنٹ سے متعلق ریمارکس پر بات کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے کہا  ہے کہ پارلیمان نا مکمل ہے جان بوجھ کر اس کو مکمل نہیں کیا جا رہا ۔ عالی المرتبت نے کہا کہ پارلیمنٹ کے قوانین متنازع ہیں کیونکہ اسے مکمل نہیں کیا جا رہا انہوں نے ایک وزیر اعظم کو ایماندار قرار دیا  انہیں ان ریمارکس کا استحقاق کس نے دیا ہے کہ وہ اس طرح کا فتویٰ دیں جس کا تعلق کیس سے بھی نہ ہو ۔ہمارے لیے یہ ریمارکس تکلیف دہ ہیں ۔  ہم عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور جو قومیں عدلیہ کا احترام نہیں کرتیں وہ انتشار اور نا انصافی کا شکار ہوتی ہیں اور ان کا تانا بانا بکھر جاتا ہے ۔ ہم نے عدلیہ کا اس وقت بھی احترام کیا جب ایک وزیر اعظم کو پھانسی دی گئی اس وقت بھی احترام  کیا جب چار مارشل لاؤں کی توثیق کی گئی اس وقت بھی احترام کیا جب با وردی جرنیل کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی اس وقت بھی احترام کیا جب ایک وزیر اعظم کو تنخواہ نہ لینے پر گھر بھجوا دیا گیا ہم نے ہر عدالتی فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کیا ۔ آئندہ بھی کرتے رہیں گے  شبلی فراز نے 90 روز میں انتخابات کی بات ہے یقیناً نوے روز میں انتخابات ہونے چاہئیں ۔ یہ معاملہ متعلقہ کمیٹی کے سپرد ہو گیا ہے ۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کے پارلیمان سے متعلق ریمارکس پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اداروں کی شخصیات کو کسی کے لیے جانبدار نظر نہیں آنا چاہیے ۔ پارلیمنٹ متنازع نہیں ہے قوم کے نمائندہ فورم میں قانون سازی ہو رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے متعلق گفتگو کا باہر کسی کو استحقاق نہیں ہے  ۔ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں  ۔ انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ کی تحریک سب کے سامنے ہے ارکان پارلیمنٹ سوچ سمجھ کر قانون بناتے ہیں ۔ عدلیہ کے فیصلے قبول ہیں ۔ پارلیمان کے فیصلے بھی قبول کئے جانے چاہئیں ۔ یہ اکثریتی فورم ہے ۔ ہماری پارلیمان کی عزت پر حملہ نہ کرے کوئی ۔ ادب و احترام سب کے لیے  لازم ہے ۔ قانون بناتے ہیں کوئی سقم نظر آتا  ہے تو عدلیہ ختم کر دے  ۔آج تک کسی نے رکاوٹ نہیں ڈالی مگر مارشل لاؤں کی توثیق کی بھی ایک تاریخ ہے ۔ ایک وزیر اعظم پھانسی چڑھ جاتا ہے پھر کہا جاتا ہے کہ غلطی ہو گئی ۔ ریاست تین ستونوں عدلیہ مقننہ انتظامیہ پر کھڑی ہے کسی کو تجاوزات نہیں کرنی چاہئیں۔