• عمران نیازی پاکستان کو ڈبو چکا تھا ، اس وقت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے
  • اب عمران خان کی باتوں سے حیرانی ہوتی ہے، سمجھ نہیں آتی ان کی ٹانگ نہیں دماغ میں بھی پرابلم ہے
  • عمران چپ رہیں یا پھر اپنے سارے افلاطونوں کے ساتھ مناظرہ کر لیں
  • توقع ہے کہ ہم جلد ہی مشکل صورتحال سے نکل جائیں گے
  • توقع ہے کہ ہم 30 جون تک اسٹیٹ بینک کے ذخائر 10 ارب ڈالر اور قومی ذخائر 16 ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس

اسلام آباد (ویب نیوز)

وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ ہر وقت یہ کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے یہ ٹھیک نہیں، نہ ملک دیوالیہ ہے نہ ہی ہوگا۔ملک میں معاشی ایمرجنسی کی کوئی ضرورت نہیں ،اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ کل سے سوشل میڈیا پر بحث چل رہی ہے اس لیے بات کرنے کے لیے یہ کانفرنس رکھی ہے، ساتھ ہی عمران نیازی کو شیشہ بھی دکھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ جوکچھ شبر زیدی نے کیا ہے اس کے بعد انہیں جیل میں ہونا چاہیے تھا، اربوں کے ریفنڈ دے کر گئے ۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ  اس وقت جو حکومت بیٹھی ہوئی ہے اس نے گزشتہ برس اپریل میں یہ اصولی فیصلہ کیا تھا کہ ریاست کو بچانا ہے یا سیاست کو۔وزیر خزانہ نے کہا کہ عمران نیازی پاکستان کو ڈبو چکا تھا اور اس وقت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے جس پر میں نے مضامین بھی لکھے تھے۔اسحق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت نے حکومت لینے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ قابل ستائش ہے اور اپنی سیاست پر ریاست کو ترجیح دی، موجودہ حکومت نے جو فیصلہ کیا وہ بہت اچھا کیا کیونکہ پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا اور کچھ لوگوں نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت بڑی غلطی کی ہے کیونکہ عمران خان اس تباہی سے خود ہی گر جاتا لیکن اس کے ساتھ پاکستان بھی گرجاتا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہر وقت یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، نہ ملک دیوالیہ ہے نہ ہی ہوگا، ہم مشکل حالات سے ضرور گزر رہے ہیں، بجائے اس کے کہ ملک کو کس طرح ان حالات سے نکالنا چاہیے، ان (عمران خان) کو صرف یہ سوچ ہے کہ کس طرح تنقید کرنی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ عمران خان کو لانے والوں نے کہا تھا کہ اگر یہ رہتے تو ملک خطرے سے خالی نہیں تھا کیونکہ انہوں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا۔ وزیر خزانہ  نے کہا کہ ان کو لانے والے  لوگ تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ پاکستان ختم ہوجائے گا ٹوٹ جائے گا، ان لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ عالمی صورتحال کیا ہے اور کیا مہنگائی صرف پاکستان میں ہورہی ہے یا کہیں اور بھی۔انہوں نے کہا کہ ہم  سیلابی صورتحال کی وجہ سے دالیں، گندم، کھاد درآمد کر ر ہے ہیںجس پر چند ماہ میں اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ناقص حکمرانی کی وجہ سے آج پاکستان اس دہانے پر پہنچا ہے، یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ موجودہ حکومت آتے ہی سیلاب آگیا جس کی تباہی سے پاکستان 30 ارب ڈالر کے نقصان ہوئے تھے۔عمران خان نے تو معیشت کو ڈبو دیا تھا، اب عمران خان کی باتوں سے حیرانی ہوتی ہے، سمجھ نہیں آتی ان کی ٹانگ نہیں دماغ میں بھی پرابلم ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ عمران خان نے ڈیفالٹ، ڈیفالٹ کی رٹ لگائی ہوئی ہے، عمران خان نے ملک کو تباہی کے دہانے پہنچایا ،۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے مالیاتی خسارہ 7.9 فیصد پر چھوڑا تھا، عمران دور میں جی ڈی پی گروتھ 3.5 فیصد پر آ گئی، ہمارے 5 برسوں میں جی ڈی پی گروتھ 5.4 فیصد تھی۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ حالیہ سیلاب سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، سیلاب کے بعد امپورٹ پر خطیر رقم خرچ ہوئی، جولائی سے فروری تک مہنگائی اس وقت 26.2 فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ مس مینجمنٹ اور بیڈ گورننس یہاں تک پہنچنے کی وجہ بنی، پوری دنیا میں اس وقت مہنگائی ہے، عمران خان کو پتہ ہے انٹرنیشنل حالات کیا ہیں،اسحق ڈار نے کہا کہ اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 3.2 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس 5.44 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں اور مجمومی طور پر 9.26 ارب کے ذخائر ہیں لیکن اس میں مزید اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ چین نے دوستی کا ثبوت دیا ہے اور ہم نے تقریبا 6.5 ارب کی بیرونی ادائگیاں کی ہیں جن میں دو ارب چینی بینکوں جبکہ ساڑھے تین ارب دیگر عالمی بینکوں کو دیے ہیں۔وزیر خزانہ نے گزشتہ حکومت اور موجودہ حکومت کے قرضوں، ادائگیوں پر تفصیلی بات کرتے ہوئے عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافہ پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ کس نے اس ملک میں مانیٹری پالیسی کو الگ کیا ہے، قانون میں تبدیلیاں کی ہیں، کس نے اداروں میں تبدیلیاں کرکے نیا سسٹم بنایا ہے، وزارت خزانہ اس کی ذمہ دار ہے۔انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے پہلی بار ضمنی بجٹ آیا ہے جو کہ ٹیکسز کے ہدف سے نہیں آیا بلکہ توانائی کی قرضوں سے آیا ہے جس میں 855 ارب روپے کا فرق تھا، لہذا ضمنی بجٹ میں ٹیکسز اس لیے نہیں لگے کہ ایف بی آر حدف پورا نہ کر سکا۔اسحق ڈار نے کہ گزشتہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو کیا اس کو قبول کریں، ٹوئٹ کرنے سے ملک کو نقصان ہوتا ہے مجھے یا کسی سیاسی جماعت کو نہیں، ایک طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا جائزہ چل رہا ہے اور دوسرے طرف آپ اس طرح کے ٹوئٹ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں دوبارہ اس بات کو دہرا دوں کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں بند کریں، نہ ملک دیوالیہ ہوا ہے نہ ہی ہوگا، جب میں کہتا ہوں کہ ہم مسلمان ہیں اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے گا تو اس بات پر بھی تنقید ہوتی ہے۔وزیر خزانہ نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو ساتھی ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ معاشی پالیسی نہیں ہے تو معاشی پالیسی بھی ہے اور روڈ میپ بھی مگر اس کا اخبار میں اشتہار نہیں دیا جا سکتا، کیا روڈ میپ پالیسی نہیں کہ ابھی تک ملک دیوالیہ نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ کاش پانچ سال پہلے میری بات سن لی جاتی جو میں کہتا تھا کہ ہم اتنا خرچ کریں جتنی ضرورت ہے تو آج پاکستان یہاں کھڑا نہیں ہوتا مگر ہم نے وہ خرچ کیا ہے جو ہم برداشت نہیں کر سکتے تھے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مجھے توقع ہے کہ ہم جلد ہی اس صورتحال سے نکل جائیں گے اور مجھے اتنی توقع ہے کہ ہم 30 جون تک اسٹیٹ بینک کے ذخائر 10 ارب ڈالر اور قومی ذخائر 16 ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ جہاں ملک سے گندم اور کھاد اسمگل ہوتی تھی اب ڈالر اسمگل ہو رہے جس کے خلاف پوری کارروائی کریں گے، انہوں نے  مزید کہا کہ ایک سیکیورٹی ایجنسی نے طارق باجوہ کو بتایا کہ ایک سال میں ان کی سیکیورٹی وینز پشاور سے دو ارب ڈالر نقد لے کر جاتی ہیں جو کہ لازم ہے اسمگل ہوتا ہے،اق ڈار کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے مزید 16 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، جنیوا کانفرنس میں سیلاب متاثرین کے لیے 8 ارب ڈالرز کے وعدے کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں غیر ملکی قرض 95 ارب ڈالر سے بڑھ کر 130 ارب ڈالر ہو گیا ،منی بجٹ ٹیکسوں کی باعث نہیں انرجی سیکٹر کے باعث آیا۔وزیرخزانہ نے کہا کہ حکومت عوام کوہرممکن ریلیف دینے کی کوشش کررہی ہے، غریب طبقہ کو 40 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا، کسان پیکج 2 ہزار ارب روپے سے زائد تھا، جولائی سے فروری تک افراط زر 26.2 فیصد رہا، اشیائے خورد و نوش میں افراط زر9 فیصد سے 2 فیصد پر لے کر آئے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ کیا ہم نے 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرنی تھی، یہ لوگ کبھی دوست ممالک کے مہمانوں کی گاڑیاں چلاتے ہیں، تو کبھی ان کو آنکھیں دکھاتے ہیں، سابقہ حکومت کے غیر سنجیدہ رویہ سے معاشی عدم استحکام آیا،وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کو بہتر کرنے میں وقت لگتا ہے ، معیشت کی بحالی آسان نہیں، کوئی سوئچ آن آف کا بٹن نہیں، عمران چپ رہیں یا پھر اپنے سارے افلاطونوں کے ساتھ مناظرہ کر لیں، ان کو لانے والوں نے کہا اگر یہ انسان چند ماہ رہ جاتا تو پاکستان کو نقصان ہوتا، اس وقت ہم 2018 میں شروع ہونے والی تباہی سے ہی گزر رہے ہیں۔