•  بحران سے ہم نکلنے میں کامیاب ہو گئے  اور استحکام آ گیا ہے زرعی انقلاب کے لئے پرعزم ہیں
  •  تاریخ میں پہلی بار پی ایس ڈی پی کے لیے 1150ارب روپے کی بڑی رقم مختص کی گئی ہے
  • روایتی بجٹ  نہیں ہے ، کہیں سے آغاز کرنا ہو گا، جب شرح نمو ہو گی، معیشت کا پہیہ چلے گا
  • لوگوں کو روزگار ملے گا تو میکرو اکنامک اشاریے ٹھیک ہونا شروع ہوں گے اور مہنگائی کم ہونا شروع ہو گی
  • روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، پالیسی ریٹ نیچے آئے گا، وزیرخزانہ کی نئے مالی سال کے بجٹ کے بعد پریس کانفرنس

اسلام آباد  (ویب نیوز)

وفاقی وزیرخزانہ سینیٹراسحاق ڈارجوہری طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو معاشی طاقت بھی بنانا چاہیے  یہی ہماراہدف ہے، سابقہ حکومت کے دور میں قرضے جی ڈی پی کی شرح سے  74 فی صدتک پہنچ گئے تھے ، بحران بہت شدید تھا جس سے ہم نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور استحکام آ گیا ہے زرعی انقلاب کے لئے پرعزم ہیں ، تاریخ میں پہلی بار پی ایس ڈی پی کے لیے 1150ارب روپے کی بڑی رقم مختص کی گئی ہے، روایتی بجٹ نہیں ہے ، کہیں سے آغاز کرنا ہو گا، جب شرح نمو ہو گی، معیشت کا پہیہ چلے گا، لوگوں کو روزگار ملے گا تو میکرو اکنامک اشاریے ٹھیک ہونا شروع ہوں گے اور مہنگائی کم ہونا شروع ہو گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، پالیسی ریٹ نیچے آئے گا، نئے مالی سال کے بجٹ کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے بجٹ کے چیدہ چیدہ نکات کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دی۔ سینیٹراسحاق ڈار نے کہا ہے کہ نئے مالی سال میں 2963 ارب روپے کا نان ٹیکس ریونیو اکٹھا ہو جائے گا تاریخ میں پہلی بار پی ایس ڈی پی کے لیے 1150ارب روپے کی بڑی رقم مختص کی گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ اکثر ہم ایسا کرتے رہے ہیں کہ بجٹ تجاویز اور کاروباری طبقہ کے تحفظات دور کرنے کے لئے  دو کمیٹیاں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے  ایک کاروباری معاملات کے حوالے سے جب کہ  دوسرٰ تکنیکی امور کے بارے میں ہوگی۔ چیئرمین ایف بی آر کو اس  بارے میں ضروری ہدایات جاری کردی گئی ہیں ۔کوئی بھی ان کمیٹیوں سے رجوع کر سکتا ہے تاکہ ہم ان کے تحفظات کو بھی دور کر سکیں۔وفاقی وزیرخزانہ نے کہا کہ مجموعی وفاقی ریونیو 12ہزار 163ارب کا اس بجٹ میں پیش کیا گیا، ایف بی آر کی کلیکشن 9ہزار 200اور نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار 963 ہے۔ اس میں اسٹیٹ بینک کا منافع 1113 ارب روپے ہے، صوبوں کو منتقلی کے بعد مجموعی وفاقی ریونیو 6ہزار 887ارب روپے ہے جبکہ اس ریونیو کے مقابلے میں کل خرچہ 14ہزار 463 ہے، اس میں کرنٹ خرچہ 13ہزار 320 ہے جس میں مارک اپ کی 7ہزار 300کی بڑی رقم ہے، دفاع کے 1804ارب روپے ہیں، ایمرجنسی اور دیگر کے لیے 200ارب ہیں، گرانٹس کے لیے 1464 ارب روپے ہیں، سبسڈیز 1074ارب کی ہیں۔انھوں نے کہا کہ  وفاقی خسارہ 7ہزار 573 (منفی 7.2فیصد) ہے اور صوبائی سرپلس کے بعد 6ہزار 923  ہے جو 6.54 فیصد بنتا ہے، مجموعی پرائمری 380ارب روپے رکھا گیا ہے اور جی ڈی پی کا 0.4فیصد حصہ بنتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب میں نے 2017-18کا بجٹ پیش کیا تھا تو پی ایس ڈی پی ایک ہزار ٹریلین تھا اور جو پچھلے سال 567ارب تھا، اس کے بعد پہلی مرتبہ ایک نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے اور ہم نے 1150ارب روپے ترقیاتی پروگرام کے لئے  اس مرتبہ مختص کیے ہیں۔ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی رقم کی تفصیلات بتاتے ہوئے  وزیرخزانہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں اہم انفرااسٹرکچر کے لیے 491.3ارب روپے ہے، سماجی شعبے کے لیے 241.2ارب روپے ہے، ہائر ایجوکیشن کے لیے 82ارب روپے ہے، ایس ڈی جی کے 90ارب روپے ہیں، دیگر سماجی شعبے کے لیے 46ارب روپے ہیں، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے لیے 263ارب روپے ہیں، پانی کے لیے 100ارب روپے ہیں، فزیکل پلاننگ اور ہاؤسنگ کے لیے 42ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے پی ایس ڈی پی پر صحیح طریقے سے عمل کر لیا اور اس کو شفافیت کے ساتھ اس میں سرمایہ کاری کی تو ہم اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے اور ساڑھے تین فیصد کی شرح نمو حاصل کر سکیں گے اور آئی ایم ایف نے بھی ہماری شرح نمو کا یہی تخمینہ لگایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے مالی سال کے میکرو اکنامک اشاریوں کی بات کی جائے تو قومی ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح 21فیصد رہنے کا امکان ہے، جی ڈی پی کے مقابلے میں ریونیو کا تخمینہ 8.7فیصد لگایا گیا ہے، مجموعی خسارہ 6.54فیصد ہے، پرائمری بیلنس 0.4فیصد ہے، جی ڈی پی کے مقابلے میں عوامی قرضہ 66.5فیصد ہے۔ یہ قرضہ بہت اہمیت کا حامل ہے جسے ہم نے 2017 میں 63فیصد پر چھوڑا تھا، اس کے بعد یہ 74 کے قریب پہنچا تھا اور اس کے بعد یہ دوبارہ 66فیصد پر واپس آرہا ہے، تو یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے شرح سود کو جون 2018 میں شرح سود کو ساڑھے 6 فیصد پر چھوڑا تھا جو اب 21 فیصد پر ہے، ایک طرف قرضے دوگنے ہو گئے اور دوسری طرف شرح سود بھی ساڑھے 3 گنا بڑھ گیا ہے، اسی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی کی رقم اس سال ہمارے بجٹ میں سب سے زیادہ ہے، اللہ کرے کہ ہم اسے کم کر سکیں اور یہ حقیقی نمبر پر آئے کیونکہ ہر ایک فیصد سے ہمیں 250 سے 300 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ہم نے روایتی بجٹ سے ہٹ کر بنایا ہے، ہمیں کہیں سے آغاز کرنا ہو گا، جب شرح نمو ہو گی، معیشت کا پہیہ چلے گا، لوگوں کو روزگار ملے گا تو میکرو اکنامک اشاریے ٹھیک ہونا شروع ہوں گے اور مہنگائی کم ہونا شروع ہو گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، پالیسی ریٹ نیچے آئے گا۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم 2017 کے میکرو اکنامک اشاریوں پر واپس جا سکیں، جب ہم وہ حاصل کر لیں گے تو پھر ہمارے پاس دوسرا ہدف ہو گا کہ ہم وہ مقام حاصل کر سکیں کہ جی20 ممالک کا حصہ بن سکیں۔سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ جوہری طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو معاشی طاقت بھی بنانا چاہیے، مسلم لیگ(ن)کا خاص طور پر یہی ہدف ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہمارا بحران بہت شدید تھا جس سے ہم نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور استحکام آ گیا ہے ، مزید تباہی اور گراوٹ رک گئی ہے، اب ہمیں اسے مثبت انداز میں آگے کی جانب لے کر جانا ہے، الیکشن کے بعد بھی جو نتائج آئیں گے تو اس کے لیے ہمارا ہدف یہی ہونا چاہیے کہ ہمیں ایسے دوبارہ ترقی کی طرف لے کر جانا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں زرعی شعبے پر توجہ دینی ہے، کوئی اس سے اختلاف نہیں کرتا کہ سب سے جلدی فائدہ زرعی شعبے سے ملتا ہے، اس کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے جس میں بے انتہا صلاحیت ہے اور پڑوسی ملک میں اربوں ڈالر کی درآمدات ہو رہی ہیں، تو ان کے لیے بھی ہم نے سہولت متعارف کرائی ہیں، نئے کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے جن لوگوں کی آمدنی 24ہزار ڈالر سالانہ ہو گی ان کو سیلز ٹیکس سے استثنی ہو گا اور جن لوگوں کی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں برآمدات سے سالانہ آمدن 50ہزار ڈالر ہو گی ان کو ایک فیصد رقم سے ڈیوٹی فری سامان منگوانے کی اجازت ہو گی۔وزیر خزانہ نے زرعی شعبے میں بیجوں کے شعبے پر خصوصی توجہ دینے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے مقابلے میں کئی ملکوں کی اسی رقبے میں کاشت دوگنا ہے، مشرقی پنجاب میں اتنے ہی رقبے میں ہمارے پنجاب کی نسبت دوگنی کاشت ہوتی ہے، تو اس کی وجہ صرف بیج ہیں جس پر ہمیں خاص توجہ دینی ہو گی کیونکہ ایسا کرنے سے ہمارا غذائی تحفظ کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور اسی لیے ہم نے بیچوں کی درآمدات پر ڈیوٹی ختم کردی ہے۔