معاشی صورتحال اندازے سے کہیں زیادہ خراب ہے، سبسڈی نہیں دے سکتے، نگران وزیر خزانہ

چیئرمین سینٹ قائمہ کمیٹی خزانہ  کا بڑھتی مہنگائی اور ایکسچینج ریٹ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافے پر تشویش کا اظہار

 تیل کے لیے ہمارا دنیا پر انحصار ہے اور ہمیں بوجھ عوام پر منتقل کرنا پڑتا ہے،آئی ایم ایف معاہدوں میں مزید سبسڈیز دینے کی گنجائش نہیں،شمشاد اختر

اسلا م آباد(ویب  نیوز)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں ارکان نے بجلی بلز  میں متعددٹیکسزکوظلم قراردیتے ہوئے کمی کا مطالبہ کردیا جب کہ  کمیٹی نے ڈالر کے بڑھتے ہوئے عدم استحکام، بجلی کی بڑھتی قیمت اور 22 فیصد شرح سود پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ  موجودہ  صورتحال نے  کاروباروں کے  بقا اور ترقی کو مشکل تربنادیا ہے۔ بجلی کے بند کارخانوں کی کیپیسٹی پیمنٹ’ جو اس وقت 1.2 ٹریلین روپے تک پہنچ گئی کا مسئلہ بھی اٹھ گیا حکومت  کو معاہدے پر نظر ثانی کی سفارش کردی گئی وزیراعظم آزاد کشمیر نے پاکستان سے کشمیری عوام کو پیداواری لاگت پر بجلی فراہمی کی  اپیل کردی ۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں  نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ملک میں معاشی زبوں حالی  اندازے سے کہیں زیادہ خراب ہے، ہمارے پاس مالی گنجائش نہیں ہے جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے اور اگر آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد نہیں کرتے تو حالات مزید مشکل ہو سکتے ہیں۔دوران اجلاس ملک کی موجودہ معاشی صورتحال بالخصوص بجلی کے زائد بلوں کے حوالے سے وزیر خزانہ شمشاد اختر سے ارکان کمیٹی نے سوالات کیے۔چیئرمین کمیٹی نے بڑھتی مہنگائی اور ایکسچینج ریٹ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کا مسئلہ بے یقینی کی صورتحال پیدا کر رہا ہے۔کمیٹی کے رکن  سینیٹرکامل علی آغا نے کہا کہ بجلی کے بلز اداکرنا مشکل ترین ہوگیا ہے   بجلی چوری کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے مراعات یافتہ طبقہ سے سہولیات واپس لی جائیں  اور بجلی بلوں میں عائد ٹیکسوں کو فی الفور واپس لیا جائے۔تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے بھی استفسار کیا ڈالر کی قیمت کے سلسلے میں آپ کیا کررہے ہیں اور سارے کا سارا پیسہ کچھ گروپس کو جارہا ہے۔ آئی پی پیز اور پاکستان ساتھ نہیں رہ سکتے، ناقص معاہدے ہوئے،  اوور انوائس کرکے منصوبے لگائے گئے  آج اس لئے  مخلوق باہر نکل آئی کہ وہ بل ادا نہیں کرسکتی۔سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ اس وقت سنگین صورتحال ہے، لوگ بل نہیں دے سکتے کیونکہ بلز میں ٹیکسز کی لمبی فہرست ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر لوگ بل دینا بند کردیں تو آپ معاہدے ہولڈ نہیں کر سکتے، سننے میں آرہا ہے دو اور سرچارجز لگنے جا رہے ہیں، یہ چارجز کمر توڑ ہوچکے ہیں، لوگ اس وقت بہت تکلیف میں ہیں اور ہمیں لوگوں کے پاس جانا ہوتا ہے اور جواب دینا ہوتا ہے۔اس موقع پر نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری اداروں کا نقصان ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے لہذا نجکاری کے عمل کو تیز کرنا ہو گا اور نجکاری کے آسان اہداف کو جلد حاصل کیا جانا چاہے۔ان کا کہنا تھا کہ نجکاری کے لیے جو ادارے تیار ہوچکے ہیں ان کی فوری نجکاری کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی 70 فیصد ٹیکس آمدن قرضے اتارنے پر خرچ ہو رہی ہے۔شمشاد اختر نے مزید کہا کہ ڈالر ان فلو کم اور ڈالر آوٹ فلو زیادہ ہونے کے باعث روپیہ دباو کا شکار ہے اور آئندہ منتخب حکومت کو آئی پی پیز سے دوبارہ بات چیت کرنا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد نہیں کرتے تو ڈالر ان فلو رک جائے گا اور حالات مزید مشکل ہو سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے علاوہ اقدامات کی ضرورت ہے تاہم بدقسمتی سے ہم نے معیشت کو کمزور کرنے کے لیے تمام کام کیے ہیں۔نگران وزیر خزانہ نے کہا کہ تیل کے لیے ہمارا دنیا پر انحصار ہے اور ہمیں بوجھ عوام پر منتقل کرنا پڑتا ہے، ہمارے پاس مالی گنجائش نہیں ہے جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔انہوں نے کہا کہ ملک کی معاشی صورت حال اندازے سے کہیں زیادہ خراب ہے، آئی ایم ایف معاہدہ ہمیں ورثے میں ملا ہے اس لیے اس پر دوبارہ بات چیت ممکن نہیں ہے جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ دوسرے قرضے بھی جڑے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے ہمارے پاس لامحدود اختیارات ہیں، ہمارے پاس محدود اختیارات ہیں اور ان ہی کے اندر رہتے ہوئے کام کریں گے۔ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ گزشتہ منتخب حکومت نے آئی ایم ایف سے ایڈجسٹمنٹس کا معاہدہ کیا لہذا نگران حکومت اس ضمن میں کچھ نہیں کرسکتی۔ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اور وزارت اس کام کو انجام دینے کے لیے کثیر الجہتی محاذوں پر انتھک کام کر رہی ہے۔  مقامی وسائل کو متحرک کرنا اور ریاستی ملکیتی اداروں میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات وقت کی ضرورت ہے اور یہ  معیشت کے لیے ثمرات لائے گی۔ نگراں وزیر خزانہ  نے کہا کہ  آئندہ ہفتے قائمہ کمیٹی کو ملکی معیشت پر جامع بریفنگ دی جائے گی ۔ کمیٹی نے پرائیویٹ ممبر بل اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2023  پرغور کیا جس کے محرک  سینیٹر مشتاق احمد  ہیں انھوں نے بتایا کہ بل کا مقصد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بے لگام اختیارات کو کم کرنا۔ ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین سٹیٹ بنک نے   کہا کہ  سابقہ  ترمیم آئی ایم ایف کے جاری پروگرام سے ہم آہنگ تھی اور اس کا مقصد مالی کارروائیوں میں حکومتی ذمہ داری ڈالنا تھا۔ کمیٹی نے بل پر بحث آئندہ اجلاس تک موخر کر دی۔کمیٹی  کو آزاد کشمیر کے بجٹ خصوصی طور پر بجلی کی پیداورپر بریفنگ دی گئی۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے بتایا کہ  آزاد جموں و کشمیر ہر سال تقریبا 2600 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے، جس کی کھپت 350 میگاواٹ ہے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ آزاد جموں و کشمیر کے عوام کو پیداواری لاگت پر بجلی فراہم کی جائے اور وفاقی تقسیم شدہ شیئر پول میں ذکر کردہ حصہ مختص کرنے کی درخواست کی۔ کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی کہ وہ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم کے تحفظات کو دور کرے۔اس کے علاوہ کمیٹی نے سینیٹر ہلال الرحمان کی جانب سے مہمند ڈیم کے متاثرین کو معاوضے کی عدم ادائیگی کے حوالے سے اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے نکتہ پر بھی غور کیا متاثرین پیش ہوئے ۔ سینیٹر ہلال الرحمان نے بتایا کہ پیکچ  کے مطابق ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ مہمند نے بتایا کہ متاثرین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے قیمتوں کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ کمیٹی نے معاملے پر بحث آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دی۔کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ نگران حکومت کو ملک کے غریب عوام کا بھرپور احساس ہے، نگران حکومت غریب طبقے کو مزید مشکلات سے دو چار نہیں کر سکتی۔شمشاد اختر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے گزشتہ حکومتوں نے کیے، آئی ایم ایف کے معاہدوں میں سبسڈیز دینا پہلے سے طے شدہ ہے، معاہدوں میں مزید سبسڈیز دینے کی گنجائش نہیں۔نگران وزیر خزانہ نے کہا کہ نگران حکومت معیشت کے استحکام کیلئے منصوبہ بندی کر رہی ہے، معیشت کی بہتری کیلئے مربوط حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے ایسے اقدامات کریں گے جن سے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کا ریٹ مستحکم ہوکمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ نگران حکومت کو ملک کے غریب عوام کا بھرپور احساس ہے، نگران حکومت غریب طبقے کو مزید مشکلات سے دو چار نہیں کر سکتی۔شمشاد اختر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے گزشتہ حکومتوں نے کیے، آئی ایم ایف کے معاہدوں میں سبسڈیز دینا پہلے سے طے شدہ ہے، معاہدوں میں مزید سبسڈیز دینے کی گنجائش نہیں۔نگران وزیر خزانہ نے کہا کہ نگران حکومت معیشت کے استحکام کیلئے منصوبہ بندی کر رہی ہے، معیشت کی بہتری کیلئے مربوط حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے ایسے اقدامات کریں گے جن سے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کا ریٹ مستحکم ہوسکے۔

#/S