مشترکہ مفادات کونسل کا نئی مردم شماری کی منظوری کافیصلہ بالکل غلط ہے،علی ظفر

سپریم کورٹ کے فیصلے نے بڑا واضح کردیا کہ الیکشنز آئین کے تحت 90دن کے اندر ہی ہونے ہوتے ہیں

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں کہ وہ الیکشن کو 90دن کے بعد تاخیر کاشکار کرے

14مئی کو الیکشن نہیں ہوسکااوروہ وقت گزرگیا ،اب تاخیر ہوئی تویہ عدالت کی بہت سنجیدہ توہین ہو گی

اسلام آباد( ویب  نیوز)

پنجاب الیکشن کیس میں سپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان کے وکیل اورپاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر نے کہا ہے کہ  چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں بینچ نے آج فیصلہ دیا ہے اس میں بڑا واضح کردیا ہے کہ الیکشنز آئین کے تحت 90دن کے اندر ہی ہونے ہوتے ہیں اورالیکشن 90دن سے آگے نہیں ہوسکتے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آئین میں لکھا ہے کہ آپ نے الیکشن 90روزکے اندر ہی کروانے ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں کہ وہ الیکشن کو 90دن کے بعد تاخیر کاشکار کرے۔ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ الیکشن کے معاملہ پر مشاورت کررہا ہے اورآج کے فیصلے بعد الیکشن کمیشن صدر مملکت کے ساتھ مشاورت کے ساتھ انتخابات کی تاریخ کااعلان کردے گا۔ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی)کا نئی مردم شماری کی منظوری کافیصلہ بالکل غلط ہے اورآئین کے خلاف ہے کیونکہ اجلاس میں دونگران وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی اورسی سی آئی میں بیٹھنے کے لئے اسمبلی سے منتخب وزیر اعلیٰ ہونا ضروری ہے۔ آئین اور الیکشن ایکٹ کہتا ہے کہ نگران کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکتے وہ صرف سٹیٹس کو والے فیصلے کرسکتے ہیں۔ ان خیالات کااظہار سید علی ظفر نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میںجسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ کی جانب سے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست مسترد ہونے کے بعدسپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سید علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اچھے اور فری اینڈ فیئر الیکشن کے لئے جو بھی انتظامات کرنے ہیں وہ90روزکے اندر ہی کرنے ہیں اور الیکشن 90دن سے ایک دن بھی آگے نہیں ہوسکتے۔ عدالت نے اصطلاح استعمال کی ہے کہ اس شق پر عمل لازم ہے، ہرادارے پر پابندی ہے کہ وہ 90دن کی شرط پر عمل کرے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کو خط لکھا ہے کہ ہم حلقہ بندیوں کی وجہ سے انتخابات التوا کاشکار کررہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں اورہم 90دن میں الیکشن نہیں کراسکتے، وہ افواہیں بھی اب ختم ہوجانی چاہئیں کیونکہ عدالت نے یہ تیسرا فیصلہ دے دیا ہے۔ سید علی ظفر نے کہا کہ 14مئی کو الیکشن نہیں ہوسکااوروہ وقت گزرگیا لیکن اب مجھے نظرآرہا ہے کہ اب انتخابات کروانے میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں اوراب تاخیر ہوئی تویہ عدالت کی بہت سنجیدہ توہین ہو گی۔ اس فیصلے کا اگلے قومی اسمبلی اوردیگر الیکشنز کے ساتھ بڑا گہراتعلق ہے، آئین کی تشریح کرنے کے بعد یہ ان پرنسپل فیصلہ ہو گیا کہ آئین کے تحت 90دن میں الیکشن کروانے ہی کروانے ہیں چاہے وہ قومی اسمبلی کے ہوں یاصوبائی اسمبلیوں کے ہوں۔ یہ فیصلہ آنے والے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر پوری طرح لاگو ہوتا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے لئے وضاحت آگئی کہ وہ 90روزسے آگے انتخابات نہیں لے جاسکتے۔پی ٹی آئی اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پہلے ہی سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کرچکے ہیں کہ عدالت عظمیٰ صدر مملکت اورالیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کرے کہ 90روز کے اندر، اندر الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی کریں اور الیکشن کا شیڈول بھی بنادیں اورصاف اورشفاف انتخابات کرائیں۔