سائفر کیس، 10 سال سزا کا فیصلہ سننے کے بعد عمران خان مسکراتے رہے

آپ سے آسان سا سوال ہے، سائفر کہاں ہے؟ جج کا عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار

میں نے وہی بیان میں کہا ہے کہ انہیں معلوم نہیں، سائفر ان کے دفتر میں تھا، سابق وزیر اعظم کا جواب

شاہ محمود قریشی دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کرانے سے قبل ہی فیصلہ سنائے جانے پر برہم

راولپنڈی( ویب  نیوز)

آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین اپنا مختصر نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10 سال کی سزا کا مختصرفیصلہ سناکر عدالت سے چلے گئے جبکہ عمران خان مسکراتے رہے۔ سماعت کے آغاز پر سائفرکیس میں نامزد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دفعہ 342 کا سوال نامہ دیا گیا، سابق وزیر اعظم نے پہلے اپنا بیان عدالت میں ریکارڈ کروایا، تاہم ان کا بیان مکمل ہوا تو جج نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ سے آسان سا سوال ہے، سائفر کہاں ہے؟ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ انہوں نے وہی بیان میں کہا ہے کہ انہیں معلوم نہیں، سائفر ان کے دفتر میں تھا، اس سے قبل کے مقدمہ میں نامزد دوسرے ملزم شاہ محمود قریشی اپنا بیان ریکارڈ کراتے جج ابو الحسنات بولے،خان صاحب، شاہ محمود قریشی صاحب، میری طرف دیکھیں، میں آپ کو 10، 10 سال قید کی سزا سناتا ہوں۔ فیصلہ سنانے کے بعد جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین عدالت سے اٹھ کرچلے گئے جبکہ فیصلے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان مسکراتے رہے، شاہ محمود قریشی دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کرانے سے قبل ہی فیصلہ سنائے جانے پر برہم دکھائی دئیے، بولے میرا تو ابھی بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوا۔ قبل ازیں عدالتی کارروائی کے دوران عمران خان نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ سائفر وزیراعظم آفس میں تھا، جس کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ملٹری سیکریٹری، پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری پروٹوکول پر عائد ہوتی ہے، جو وزیراعظم ہاؤس کی سیکیورٹی کو دیکھتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت کے دوران یہ واحد دستاویز ہے جو وزیراعظم آفس سے غائب ہوئی، سائفر کی گمشدگی ہونے پر ملٹری سیکریٹری سے انکوائری کا کہا، وہ واحد موقع تھا جب وہ ملٹری سیکریٹری سے ناراض بھی ہوئے، سابق وزیر اعظم کے مطابق ان کے اے ڈی سی میں سے ایک نے جنرل باجوہ کی ایما پر سائفر چوری کیا۔ عمران خان کے مطابق منتخب وزیراعظم کو سازش کے ذریعے ہٹایا گیا، جس میں جنرل باجوہ اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو شامل تھے، ان کی حکومت گرانے کے لیے سازش اکتوبر 2021میں ہوئی جب جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض کو تبدیل کیا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ، نواز شریف اور شہباز شریف کی ملی بھگت سے یہ سب ہوا کیونکہ انہوں نے جنرل باجو ہ کو مدت ملازمت میں توسیع کا وعدہ کیا تھا، حسین حقانی کو امریکا میں جنرل باجوہ کی لابنگ کے لیے ہائر کیا گیا اور انہیں اس ضمن میں 35 ہزار ڈالر کی ادائیگی کی گئی، اپریل میں حسین حقانی نے ٹوئیٹ کیا کہ عمران خان اینٹی امریکا جبکہ جنرل باجوہ پرو امریکا ہے۔سابق وزیر اعظم نے عدالت کو بتایا کہ ان کے اتحادی انہیں چھوڑ جائیں اس کے لیے جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی کو استعمال کیا، جس نے ان کے ساتھیوں کو پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا اور کہا کہ ان کا مستقبل نون لیگ کے ساتھ ہے، عمران خان کے مطابق جب انہوں نے جنرل باجوہ سے اس سازش پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں، جنرل باجوہ سے ملاقاتوں کے باوجود آئی ایس آئی ان کی حکومت کے خلاف کام کرتی رہی۔ سابق وزیر اعظم نے عدالتی بیان میں بتایا کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں ان کا روس کا دورہ تھا، جس میں دفتر خارجہ کی مرضی بھی شامل تھی، روس جانے سے قبل جنرل باجو ہ سے بھی بات ہوئی، ان کا بھی کہنا تھا کہ روس جانا چاہیے، روس سے واپس آنے کے کچھ دنوں بعد شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ واشنگٹن سے اسد مجید نے سائفر بھیجا ہے، حیران کن سائفر تھا جو وزیر خارجہ اور وزیراعظم کو دکھانے کے لیے نہیں تھا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے اتحادی پیغام بھیج رہے تھے کہ ان پر اتحاد چھوڑنے کے لیے آئی ایس آئی کا دباؤ ہے، اس دوران امریکی سفارت خانہ بھی پاکستان میں متحرک تھا، ہمارے لوگوں کو امریکی سفارت خانے ملاقاتوں کے لیے بلایا جا رہا تھا، عاطف خان کو امریکی کونسل خانے بلا کر وزیراعلی خیبر پختونخوا کیخلاف عدم اعتماد کا ووٹ دینے کا کہا گیا۔عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ اس دوران جنرل باجوہ سے ان کی متعدد ملاقاتیں ہوئیں، جس میں انہیں باور کرایا گیا کہ اگر حکومت گرائی جاتی ہے تو معیشت تباہ ہو جائے گی، کہا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت جو پلان کی جا رہی ہے وہ معاشی صورتحال سنبھال نہیں پائے گی، لیکن جنرل باجوہ مسلسل جھوٹ بولتے رہے کہ وہ حکومت چلنے دینا چاہتے ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ پریڈ گرانڈ جلسے میں پیپر لہرایا اور صرف خطرے کا ذکر کیا، ملک کا نام نہیں لیا اور الفاظ کا بھی محتاط چناؤ کیا گیا، جو پیپر لہرایا گیا وہ سائفر کی پیرا فریزڈ کاپی تھی، پلان جنرل باجوہ کو پیغام دینا تھا کہ اگر سازش ہوئی تو تمام پلان ایکسپوز کر دیا جائے گا، ڈونلڈ لو کی جانب سے سائفر جنرل باجوہ کے نام تھا کیونکہ انہی کے پاس ہماری حکومت گرانے کی طاقت تھی۔عمران خان کے مطابق سندھ ہاس میں بولیاں لگی ایک ایک ایم این اے کی قیمت 20کروڑ فکس کی گئی، اٹارنی نے سائفرپر بات کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ آئی ایس آئی نے انہیں اپروچ کیا تھا، حکومت گرائی گئی جس کے بعد انہوں نے عوام سے رجوع کیا، عوامی رد عمل تاریخی تھا، کچھ ماہ بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے 37 میں سے 30 نشستیں جیتیں۔